منگل, مارچ 4, 2025
اشتہار

روئے مردہ کی نقاشی

اشتہار

حیرت انگیز

"بوف کور” فارسی زبان میں لکھا گیا ناول ہے جس کے مصنف صادق ہدایت دنیائے فکشن کا ایک اہم نام ہیں۔ فارسی ادب میں صادق ہدایت کے زمانے کو جدید افسانے کا دوسرا اور اصل دور کہا جاتا ہے جو ایک مصنّف ہی نہیں دانش وَر کے طور پر بھی دنیا بھر میں پہچانے گئے۔

صادق ہدایت کی کہانیاں انسانی زندگی کی بدنما حالت اور نفسیاتی کرب کا مجموعہ ہیں جن میں فلسفیانہ قسم کا اضطراب، ناامیدی، یاسیت اور حد درجہ مایوسی نظر آتی ہے۔ صادق ہدایت کے کم و بیش تمام ہی افسانوں کے مرکزی کرداروں کا انجام یا تو کسی نہ کسی حالت میں موت پر ہوا یا وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ 1951ء میں صادق ہدایت نے بھی خود کشی کرلی تھی۔

صادق ہدایت نے قیام یورپ کے دوران کئی افسانے لکھے۔ بعد میں وہ بمبئی منتقل ہوئے اور وہاں "بوف کور” جیسا مشہور ناول ان کے قلم سے نکلا۔ یہ ناول تہران کے اخبار روزنامہ ایران میں قسط وار اور بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ ناقدین کے مطابق یہ ناول اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک زندہ دستاویز اور فنی معیار کے لحاظ سے ایک مکمل شاہ کار ہے۔ اس کا شمار جدید فارسی کے ادبِ عالیہ میں ہوتا ہے۔ ان کے اس ناول کا اجمل کمال نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ یہاں ہم ناول "بوف کور” سے ایک سحر انگیز اقتباس پیش کررہے ہیں:

ایسے موقعوں پر ہر کوئی اپنی زندگی کی کسی پختہ عادت میں یا اپنے کسی وہم میں پناہ لیتا ہے۔ شرابی شراب میں مست ہو جاتا ہے، لکھنے والا لکھنے میں، سنگ تراش، سنگ تراشی میں۔ اور ہر ایک اس بے چینی اور الجھن کو اپنے اپنے محرک کے وسیلے سے زندگی سے خارج کرتا ہے؛ ‘اور یہی موقعے ہوتے ہیں جب ایک سچا فن کار اپنے شاہکار کو وجود میں لا سکتا ہے۔’

لیکن میں، بے ذوق اور بے بس، محض قلم دان کے ڈھکنوں کا نقاش۔ میں بھلا کیا کرسکتا تھا؟ ان معمولی، بھڑک دار اور بے روح تصویروں میں سے، جو سب ایک ہی شکل کی تھیں، میں کون سی تصویر بناتا کہ شاہ کار ہوتی؟

پھر بھی مجھے اپنے تمام وجود میں ایک سرشاری اور حرارت محسوس ہو رہی تھی، ایک خاص طرح کا جوش اور ہلچل۔ میں چاہتا تھا کہ ان آنکھوں کو جو اب ہمیشہ کے واسطے بند ہوگئی تھیں، کاغذ پر اُتار کر اپنے پاس رکھ لوں۔۔۔ اس احساس نے مجھے اپنے خیال کو عمل کی صورت دینے پر اُکسایا۔ مجھ میں ایک عجیب طرح کی زندگی پیدا ہو گئی۔ اس وقت جب میں ایک لاش کے ساتھ محبوس تھا، اس خیال نے مجھ میں عجب نشاط پیدا کیا۔

آخر میں نے دھواں دیتے چراغ کو گُل کیا اور دو شمع دان لا کر اس کے سرھانے روشن کر دیے۔ شمع کی لرزتی ہوئی روشنی میں اُس کا چہرہ اور پرسکون ہو گیا تھا اور کمرے کی دُھندلی روشنی میں وہ ایک پُر اسرار اور آسمانی کیفیت میں لگ رہی تھی۔ میں کاغذ اور نقاشی کا سامان لے کر اُس کے پلنگ کے پاس آیا۔۔۔ ہاں، یہ پلنگ اب اُس کا تھا۔ یہ صورت جسے آہستہ آہستہ گل کر نابود ہو جانا تھا، اور جو اس وقت بے حرکتی اور ٹھہراؤ کی کیفیت میں تھی، میں اس کے خطوط کو بہت آرام سے کاغذ پر اتار لینا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اُس کی صورت کے وہ خطوط چنوں جنھوں نے مجھے متاثر کیا تھا۔ میری نقاشی چاہے سادہ اور مختصر ہو لیکن مؤثر ہو اور روح رکھتی ہو۔

میں اب تک قلمدانوں پر محض عادت کی بنا پر ایک سی تصویریں بنایا کرتا تھا۔ اب اپنی فکر کو کام میں لا کر مجھے اپنے خیال کو یعنی اس واہمے کو مجسم کرنا تھا، جس نے اُس کی صورت سے اٹھ کر مجھ پر اثر کیا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک نگاہ ڈال کر مجھے آنکھیں بند کر لینی تھیں اور اس کے منتخب نقوش کو کاغذ پر لانا تھا کہ اپنے ذہن کے وسیلے سے اپنی جکڑی ہوئی روح کے لیے تریاق پیدا کر سکوں۔

آخر کار میں نے بے حرکت خطوط و اشکال کی دنیا میں پناہ لی۔

روئے مردہ کی نقاشی۔۔۔ یہ موضوع میری مردہ نقاشی سے خاص مناسبت رکھتا تھا۔ اصل میں میں لاشوں ہی کا نقاش تھا۔ لیکن کیا اس کی آنکھوں کو، بند آنکھوں کو دوبارہ دیکھنا ضروری تھا ؟ کیا وہ ابھی تک میرے ذہن اور فکر میں کافی مجسم نہیں ہوئی تھیں؟ میں نہیں جانتا صبح تک کتنی بار میں نے اس کی تصویر بنائی لیکن کوئی بھی میرے جی کو نہ لگی۔ جو بھی تصویر بنائی، پھاڑ ڈالی۔ اس کام میں مجھے تھکن کا احساس ہوا اور نہ وقت کے گزرنے کا۔
اندھیرا چھٹ رہا تھا۔ ایک گدلی سی روشنی کھڑکی کے شیشے میں سے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ میں جو تصویر بنانے میں منہمک تھا وہ مجھے پچھلی تمام تصویروں سے بہتر لگ رہی تھی۔ لیکن آنکھیں؟ وہ کسی نا قابل معافی گناہ پر سرزنش کرتی ہوئی آنکھیں میں کاغذ پر نہ اتار سکا۔۔۔ میرے ذہن سے ان آنکھوں کا وجود اور ان کی یاد بالکل مٹ چکی تھی۔ میری کوشش بیکار تھی۔ کتنا ہی اس کے چہرے پر نگاہ جماتا، ان آنکھوں کی کیفیت ذہن میں نہ آتی تھی۔

اچانک اسی وقت میں نے دیکھا کہ اس کے رخساروں پر ہلکی سی سرخی آئی اور ہوتے ہوتے ان کا رنگ قصاب کی دکان پر لٹکے ہوئے گوشت کا سا ہو گیا۔ اس میں پھر سے جان پڑ رہی تھی۔۔ اس کی بے اندازہ گہری اور حیران آنکھیں جن میں زندگی کا تمام تر فروغ جمع ہو گیا تھا اور جو بیماری کی دھیمی روشنی سے چمک رہی تھیں، وہ سرزنش کرتی ہوئی آنکھیں بہت آہستہ آہستہ کھلیں اور میرے چہرے کی طرف اُٹھیں۔۔۔ پہلی بار اُس نے میری طرف توجہ کی، مجھ پر نگاہ ڈالی اور پھر اس کی آنکھیں مند گئیں۔ اس بات میں شاید ایک لمحے سے زیادہ نہیں لگا ہوگا، لیکن یہ عرصہ میرے لیے اُس کی آنکھوں کی کیفیت پانے کو کافی تھا تا کہ میں اُس کیفیت کو کاغذ پر اتار سکوں۔ میں نے مو قلم سے اُس کیفیت کو کاغذ پر نقش کیا اور اب کے میں نے تصویر کو نہیں پھاڑا۔۔!

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں