بدھ, فروری 19, 2025
اشتہار

گاندھی کا مجسمہ اور جمشید نسروانجی کا بیان

اشتہار

حیرت انگیز

شخصی خاکوں کی کتاب بعنوان ’عظمت رفتہ‘ ضیاء الدین برنی کی تصنیف کردہ ہے جو یاد نگاری اور تذکرہ نویسی کے ساتھ کئی دل چسپ واقعات کا گل دستہ بھی ہے۔ اس میں موہن داس کرم چند گاندھی اور محمد علی جناح کے خاکے بھی شامل ہیں۔ یہاں ہم جمشید نسروانجی سے متعلق برنی صاحب کی ایک یاد تازہ کر رہے ہیں۔

کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروانجی (1886ء تا 1952ء) کو شہر کے محسنین میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نومبر 1933ء میں اس عہدے پر فائز ہوئے اور کراچی شہر اور اس کے باسیوں‌ کے لیے کئی خدمات انجام دیں۔ گرو مندر کراچی کے قریب ایک سڑک بھی ان سے منسوب ہے۔ جمشید نسروانجی کا تعلق کراچی کی پارسی برادری سے تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد بھی کئی برس تک کراچی میں بعض کئی اہم عمارتوں پر گاندھی کی تصاویر اور مجسمے دیکھے جا سکتے تھے جن کا افتتاح تقسیم سے پہلے گاندھی جی نے کیا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ ماضی کی یہ یادگاریں سرحد کے دونوں اطراف ہی فسادات اور نفرت کی آندھی کے سامنے تو نہیں‌ ٹھیر سکتی تھیں۔ سو، بہت کچھ برباد ہوا اور بہت کچھ مٹا دیا گیا۔ لیکن جب گاندھی کا ایک مجسمہ موسم کی نذر ہوا اور یہ خبر بھارت کے عوام تک پہنچی تو یہ خدشہ ہوا کہ دلوں میں اس سے منفی جذبات پیدا ہوں گے اور کسی سطح پر ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے۔ تب، جمشید نسروانجی کا بیان سامنے آیا۔ ضیا الدین احمد برنی نے اپنی مذکورہ کتاب جو 1961ء میں شایع ہوئی تھی، اس میں اس واقعے کو بنیاد بناتے ہوئے جمشید نسروانجی سے متعلق لکھا ہے:

میں بمبئی میں برسوں سے کراچی کے اس سینٹ (مقدس بزرگ) کا نامِ نامی سنتا چلا آیا تھا اور اسی لیے کراچی آتے ہی اپنی اوّلین فرصت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہر ملاقات میں ان کی شرافت اور خلوص سے گہرے طور پر متاثر ہوا۔ وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں مملکتوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان نے گاندھی جی کے مجسمے کے متعلق خاص طور پر ان سے بیان دلوایا۔

ہندوستان والوں کا خیال تھا کہ مجسمہ جان بوجھ کر گرایا گیا ہے اور پاکستان والے کہتے تھے کہ تند ہواؤں کے جھونکوں سے یہ خود بخود گر گیا ہے۔ اس خیال سے کہ کہیں یہ واقعہ دنوں مملکتوں کے مابین مزید کشیدگی کا باعث نہ بن جائے، لیاقت علی خان نے جمشید مہتا سے ایک بیان دلایا جس کا ہندوستان پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ جمشید نسروانجی کی ساری زندگی خدمت الناس میں گزری اور انھوں نے اپنی پاکیزہ زندگی سے بتایا کہ مادّیت کے اس دور میں بھی بے غرضی، سچائی اور روحانیت کو روزمرہ کے کاموں میں کس طرح سمویا جا سکتا ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں