پیر, فروری 24, 2025
اشتہار

مدھو بالا:‌ روپ کی رانی جو عین جوانی میں زندگی سے محروم ہوگئی

اشتہار

حیرت انگیز

مدھو بالا نے فلم ‘مغلِ اعظم’ میں ‘انار کلی’ کا کردار قبول کر کے شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان گویا راتوں رات طے کر لیے۔ حسین اور دل کش سراپے کی مالک مدھو بالا ہندوستانی سنیما پر چھا گئیں اور انھیں ‘وینس آف انڈین سنیما’ کہا جانے لگا۔ آج اداکارہ مدھو بالا کی برسی ہے۔‌

تاریخ کے اوراق الٹیں‌ تو مغلیہ دور کی ایک کنیز انار کلی کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے بادشاہ کے حکم پر دیوار میں‌ زندہ چنوا دیا گیا تھا۔‌ فلم میں‌ یہ کردار اداکارہ شہناز، نرگس اور نوتن کو آفر ہوا تھا، لیکن ان کی قسمت میں ‘انار کلی’ بننا نہیں لکھا تھا اور یوں لازوال شہرت اداکارہ مدھو بالا کا مقدر بنی۔‌

فلمی دنیا کی مدھو بالا کا اصل نام ممتاز تھا۔ اسی نام سے وہ پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ مشہور ہے کہ اسی دور کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی کے کہنے پر ممتاز نے فلمی پردے کے لیے اپنا نام مدھو بالا رکھا تھا۔ فلمساز اور ہدایت کار کیدار شرما نے 1947ء میں انھیں اپنی پہلی فلم نیل کمل میں بطور ہیروئن سائن کیا تھا۔ اس وقت مدھو بالا کی عمر صرف تیرہ سال تھی۔ بعد میں وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ بنیں اور پھر مغلِ اعظم میں لاجواب اداکاری کے ساتھ ان کے حسن وجمال کا بھی ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ یہاں یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم کی عکس بندی کے دوران مدھو بالا بیمار تھیں، لیکن انھوں نے شوٹنگ جاری رکھی۔ ہندوستانی سنیما میں یہ فلم آج بھی ایک کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کنیز کا کردار نبھانے کے لیے مدھو بالا کا رنگ روپ، بانکپن، تمکنت اور دل کش لب و لہجہ فلم ساز کو بہت موزوں نظر آیا تھا اور واقعتاً مدھو بالا کے. آصف کی توقعات پر پورا اتریں اور بیماری کے باوجود اپنا کردار بہت عمدگی سے نبھایا۔

لاکھوں دلوں‌ کی دھڑکن اور روپ کی رانی مدھو بالا نے عمر بہت تھوڑی پائی۔ وہ صرف 36 زندہ رہ سکیں اور اس عرصہ میں بھی 9 سال وہ تھے جب مدھو بالا بیماری کی وجہ سے اپنے گھر میں بستر تک محدود تھیں۔ مدھو بالا کے دل میں سوراخ تھا اور معالجین کا کہنا تھا کہ انھیں زیادہ سے زیادہ آرام کرنا ہوگا۔ 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہونے والی ممتاز کے والدین کو ڈاکٹروں نے کہا تھاکہ اس کے آرام کا خاص خیال رکھنا ہوگا، ان کی بیٹی بہت زیادہ کام نہیں‌ کرسکتی اور عام آدمی کی طرح‌ مسلسل جسمانی سرگرمی اس کے لیے مسئلہ بن سکتی ہے۔

ممتاز جس کنبے کی فرد تھی وہ والدین اور گیارہ بہن بھائیوں پر مشتمل تھا۔ ممتاز کے والد عطاء اللہ لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی کے ملازم تھے، جو نوکری چھوڑ کر دہلی منتقل ہوگئے اور اپنی بیٹی ممتاز کو چھوٹی عمر میں‌ فلم نگری میں‌ کام دلوانے میں کام یاب رہے۔ بمبئی میں‌ مقیم ممتاز کو آرام کرنے کا موقع کم ملتا تھا۔ وہ مسلسل شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔ لیکن عطاء اللہ کو بیٹی کی صحت سے زیادہ اس کی کمائی سے غرض تھی۔ ممتاز بڑی ہورہی تھی اور فلم کی دنیا میں اس کے حسن کا جادو چل چکا تھا اور پھر وہ وقت آیا جب عطاء اللہ کے گھر گویا ہن برسنے لگا۔

دیکھا جائے تو مدھو بالا کے فلمی سفر کا آغاز، اپنے حسن اور دل کش سراپے کی بدولت فلم سازوں‌ کی نظر میں آنا اور پھر کام یابیاں‌ سمیٹتے چلے جانا ایک قابلِ‌ ذکر کہانی ہے، لیکن اس کا الم ناک پہلو مدھو بالا کی بیماری، فلمی دنیا میں عشق اور شادی کے بعد بھی رنج و آلام اور روح پر لگنے والے زخم ہیں، جن کے بعد وہ تیزی سے موت کی طرف بڑھ گئی۔ مدھو بالا 1969ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان کی زندگی کے آخری ایّام آنسو بہاتے ہوئے گزرے۔

اداکارہ مدھو بالا اور دلیپ کمار کے عشق کی داستان بھی فلمی دنیا میں بہت مشہور ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک وقت آیا جب یوسف خان المعروف دلیپ کمار اداکارہ پر نکاح کے لیے دباؤ ڈالنے لگے، لیکن مدھو بالا اپنے باپ کے خوف سے ایسا کوئی قدم اٹھانے کو فی الوقت تیّار نہ تھی۔ مدھو بالا کو کچھ وقت چاہیے تھا، لیکن دلیپ نہ مانے اور مدھو بالا سے ناتا توڑ لیا۔ دلیپ کمار سے مایوس، گھر کے حالات، اپنے والد کی لالچی اور خود غرضانہ طبیعت اور اپنی بیماری سے پریشان مدھو بالا نے یہ سوچ کر اس وقت کشور کمار کا ہاتھ تھام لیا کہ وہ اسے زندگی کی طرف لوٹا سکے گا۔ 1960 میں ان کی شادی ہوئی۔ لیکن گلوکار کشور کمار بھی مدھو بالا کو خوشیاں نہ دے سکے۔ انھیں مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ بیماری کس حد تک ان کی نوبیاہتا کو متاثر کرچکی ہے۔ بہرحال، وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ چند سال ہی زندہ رہ سکیں‌ گی۔ کشور کمار نے ایک بیمار عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے اپنی ذات اور سکون کو ترجیح دی اور مدھو بالا کو اس کے والدین کے گھر چھوڑ دیا۔ وہ دو، تین ماہ میں ایک بار اپنی بیوی کی خیریت دریافت کرنے چلے آتے تھے۔ کشور کمار کے اس سلوک نے شکستہ دل مدھو بالا کو مزید ہلکان کردیا۔ پرستار لاکھوں، آگے پیچھے پھرنے والے ہزاروں، فلم انڈسٹری اور باہر کی دنیا میں ہر ایک مدھو بالا کے حسن و جمال اور ان کے فنِ اداکاری کا قائل تھا، مگر مدھو بالا کو حقیقی خوشیاں اور سکھ نصیب نہ ہوسکا۔

فلم انڈسٹری کی معروف شخصیت کمال امروہوی بھی عاشق مزاج اور حُسن پرست مشہور تھے جن کی مدھو بالا سے پہلی ملاقات کا ایک واقعہ انیس امروہوی نے یوں بیان کیا ہے۔

ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔ جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟

اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بنی۔

اداکارہ مدھو بالا نے 66 فلموں میں کردار ادا کیے۔ ان کی مشہور فلموں میں دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ کہتے ہیں کہ بولی وڈ میں ذاتی محافظ رکھنے کا آغاز مدھو بالا نے کیا تھا۔ اداکارہ کی آخری آرام گاہ ممبئی میں ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں