پاکستانی ٹیم کے سابق کپتان محمد حفیظ نے چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی بدترین کارکردگی کے باعث قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایک مقامی نجی ٹی وی کے اسپورٹس پروگرام میں سابق کپتان محمد حفیظ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں انڈیا کی ٹیم ہم سے بہت بہتر ٹیم ہے، مگر ہم پلاننگ میں بھی بہت زیادتی کرتے ہیں۔
سابق کپتان نے کہا کہ مجھے فہیم اشرف کو ٹیم میں سلیکٹ کرنے کی کوئی ایک وجہ بتادیں؟ ان کنڈیشنز میں جہاں آپ کے پاکستان میں 3 سے 4 میچ ہوں گے، 2 میچ ہوسکتا ہے آپ کے دبئی میں جائیں، فہیم اشرف کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی، وہ ٹیم میں کیا کررہے ہیں؟ ہم نے کوئی لیگ اسپنر کیوں نہیں لیا، ہم نے اپنی مرضی سے ہی سب کچھ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی لوگ بیٹھ کر فیصلے لے رہے ہیں، کس ڈیل کے اوپر عثمان خان ٹیم کے ساتھ ہے، مجھے بتادیا جائے، انہوں نے کہا کہ میں نے اس ملک کے لئے 19 سال کرکٹ کھیلی، شعیب اختر نے 20سال کھیلے، ملک نے 22 سال کھیلا، اتنے برے فیلئر کے بعد ٹیم کے ساتھ رہنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
سابق کپتان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم کو بولنگ ٹرائیکا شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور نسیم شاہ نے بڑے ایونٹ جتوانے کی امیدیں رہیں لیکن یہ ہر بار ناکام ہوئے۔
سابق کپتان نے کہا کہ یہ بولنگ ٹرائیکا 2022 کے میلبرن ٹی 20 ایونٹ، 2023 کے ایشیا کپ، آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ، 2024 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں مکمل ناکام رہا۔
اسی طرح بابر اعظم کو اس وقت پاکستان کا سب سے اچھا بیٹر کہا جاتا ہے، چلو مان لیا ہوگا، لیکن وہ انضمام الحق نہیں۔ انضمام الحق مشکل ترین صورتحال میں پاکستان کو میچ جتواتے تھے، لیکن اس (بابر اعظم) کو 10 سال ہوگئے کرکٹ کھیلتے ہوئے آج تک اپنی کارکردگی سے بھارت کیخلاف ایک میچ نہیں جتوا سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ بابر اعظم نے آج تک آسٹریلیا میں اس کے خلاف ایک میچ نہیں جتوایا۔ اس کو سب سے اچھا بیٹر کہا جاتا ہے لیکن وہ اب تک سینا ممالک (جنوبی افریقہ، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا) میں کبھی مین آف دی سیریز نہیں رہا۔
پاکستان ٹیم میں گروپنگ پر یونس خان نے کیا کہا؟ محمد عامر نے لب کشائی کردی
حفیظ نے کہا کہ اب پھر پی ایس ایل آ رہا ہے اور یہ تمام کھلاڑی سب دوبارہ ہیرو بن جائیں گے، لیکن ہمیں اشتہاری ہیرو نہیں بلکہ عالمی کرکٹ کے حقیقی ہیرو چاہئیں۔
سابق کپتان نے مزید کہا کہ ہہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جن کھلاڑیوں پر ہمارا تکیہ تھا، وہ پاکستان ٹیم کے لیے کارکردگی نہیں دکھا رہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جو برسوں سے ڈومیسٹک میں پرفارم کر رہے ہیں اور کارکردگی دکھانے کے باوجود چانس ملنے کے منتظر ہیں۔ انہیں آزمایا جائے۔