منگل, فروری 25, 2025
اشتہار

نصراللہ خان: صحافت اور ادب کی دنیا کا ایک اہم نام

اشتہار

حیرت انگیز

نصراللہ خان کا شمار معروف فکاہیہ کالم نگاروں میں ہوتا ہے انھوں نے ڈرامے بھی تحریر کیے اور شخصی خاکے اور تذکرہ نویسی بھی خوب کی۔ نصراللہ خان اپنے منفرد اور شگفتہ اسلوب کی بنا پر اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔

بطور فکاہیہ کالم نویس نصراللہ خان کئی مشہور اخبارات و رسائل سے وابستہ رہے اور ان کی نثر پر مشتمل دیگر تحاریر بھی اکثر ادبی صفحات کی زینت بنتی رہیں۔ نصر اللہ خان کا ایک وصف تحریر کی شگفتگی اور روانی تھی جس نے انھیں صاحبِ اسلوب کالم نگار بنایا۔

نصر اللہ خان کی صحافت پر خامہ بگوش کے عنوان سے کالم لکھنے والے ادیب و محقق اور نقاد مشفق خواجہ نے کہا تھا: وہ اس زمانے کے آدمی ہیں جب صحافی سیاسی جماعتوں یا سرکاری ایجنسیوں کے زر خرید نہیں ہوتے تھے۔ ان کے پاس ضمیر نام کی ایک چیز بھی ہوتی تھی۔

نصر اللہ خان کو اردو صحافت کا ایک بڑا نام بھی تسلیم کیا جاتا ہے جن کی تحریریں ہر طبقۂ سماج میں‌ یکساں‌ پسند کی گئیں۔ نصر اللہ خان 11 نومبر 1920ء کو جاورہ، مالوہ کے ایک خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک چھوٹی مسلمان ریاست تھی۔ بعد میں نصراللہ خان امرتسر چلے گئے۔ نصراللہ خان کے آبا و اجداد غیر منقسم ہندوستان میں صوبہ سرحد کے شہر پشاور کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا کی مادری زبان پشتو تھی اور پیشہ تجارت تھا۔ بعد ازاں وہ امرتسر میں آباد ہو گئے تھے۔ نصراللہ خان کے والد کا نام محمد عمر خان تھا جو تدریس سے وابستہ تھے اور ادب کا بھی شوق رکھتے تھے۔ نصراللہ خان نے باقاعدہ تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ مزید تعلیم کے لیے ایم اے او (MAO) کالج امرتسر میں داخلہ لے لیا۔ پھر اجمیر سے بی اے اور بی ٹی کرنے کے بعد ناگپور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ تقسیم کے بعد 1949ء سے 1953ء کے دوران ریڈیو پاکستان کراچی میں پروڈیوسر رہے، بعد ازاں روزنامہ انقلاب لاہور، روزنامہ حرّیت کراچی اور روزنامہ جنگ کراچی سے وابستہ ہوگئے اور آداب عرض کے نام سے ان کا کالم قارئین تک پہنچنے لگا جو بہت مقبول ہوا۔ 25 فروری 2002 کو نصراللہ خان وفات پاگئے تھے۔

اردو زبان میں نصراللہ خان کی صحافت کا آغاز مولانا ظفر علی خان کے زمیندار اخبار سے ہوا تھا اور انہی کے زیر سایہ ان کی فکری اور قلمی تربیت ہوئی تھی۔ پاکستان میں اپنی صحافتی زندگی کے دوران خان صاحب نے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی بہت سی اہم شخصیات کو قریب سے دیکھا اور ان سے بات چیت کا بھی موقع انھیں ملا۔ ان میں جید عالم دین، سیاست داں، فن کار، شاعر، ادیب، موسیقار الغرض‌ متنوع شخصیات شامل ہیں۔ ان شخصیات سے اپنے تعلقات اور ملاقاتوں کو نصر اللہ خان نے اپنے منفرد اسلوب میں رقم کیا اور شخصی خاکوں کی ایک کتاب سامنے لائے جو بہت دل چسپ ہے اور کئی اہم واقعات ہمارے سامنے لاتی ہے۔ اس کتاب کو ایک مستند حوالہ اور معیاری تذکرہ اس لیے بھی کہا جاسکتا ہے کہ مصنف نے خوش قسمتی سے مختلف علاقوں کی تہذیب و ثقافت کو قریب سے دیکھا اپنے وقت کے مشاہیر سے بھی ملاقاتیں کیں اور ان کی صحبت میں وقت گزارا تھا۔ تقسیم سے قبل نصر اللہ خان بھوپال، امرتسر، اجمیر، ناگپور اور لاہور میں بھی رہ چکے تھے۔ نصر اللہ خان کی یہ تصنیف "کیا قافلہ جاتا ہے” کے عنوان سے پہلی بار 1984 میں شائع ہوئی تھی۔ مصنف کی دوسری تصانیف میں کالموں کا مجموعہ بات سے بات، ڈرامہ لائٹ ہاؤس کے محافظ، اور ان کی سوانح عمری اک شخص مجھی سا تھا، شامل ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں