امتیاز علی خاں عرشی کو اردو کے صفِ اوّل کے چند محققین میں شمار کیا جاتا ہے، جن کی ساری زندگی زبان و ادب میں تحقیق اور تصنیف و تالیف کے کاموں میں بسر ہوئی۔ اس میدان میں ان کے کارنامے نہایت اہم ہیں۔ امتیاز علی خاں عرشی کو ماہرِ غالبیات کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔
محقق و مصنّف امتیاز علی خاں عرشی کا وطن رام پور ہے۔ ان کی پیدائش کا سال 1904ء ہے اور رام پور، بھارت ہی میں 25 فروری 1981ء کو عرشی انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ زندگی بھر رام پور کے ایک عظیم علمی ادارے رضا لائبریری سے وابستہ رہے جہاں نادر و نایاب کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا۔ عرشی نہ صرف خود اس ذخیرے سے خود فیض یاب ہوئے بلکہ جہانِ علم و ادب کو بھی اپنے علم اور مطالعہ سے خوب فیض پہنچایا۔ عرشی صاحب کا اصل میدان عربی ادب تھا لیکن اردو میں ان کی تصانیف بھی نہایت اہم ہیں۔
یہ درست ہے کہ تحقیق و تدوین کا کام جس دیدہ ریزی اور جگر کاوی کا مطالبہ کرتا ہے امتیاز علی خاں عرشی اس پر پورا اترتے ہیں۔ عرشی صاحب نے تصنیف و تالیف کی ابتدا اپنی تعلیم کے زمانے میں پنجاب یونیورسٹی میں کی۔ بعد میں رام پور ریاست کی عظیم الشان رضا لائبریری سے وابستہ ہو گئے۔ وہ عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور اسی وصف کے سبب تحقیق کے میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دے سکے۔خاص طور پر انھوں نے غالبیات کے ضمن میں بڑے وقیع و مستند اضافے کیے۔ عرشی صاحب نے 1947 میں ’’فرہنگ غالب‘‘ شائع کی اور ’’دیوان غالب نسخۂ عرشی‘‘ میں غالب کے اردو کلام کو تاریخی ترتیب سے پیش کیا۔ انشاء اللہ خان انشاء کی مختصر کہانی سلک گہر کو بھی عرشی صاحب نے اپنے دیباچے کے ساتھ 1948 میں اسٹیٹ پریس رام پور سے چھپوایا۔ محاورات کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں بیگمات کے محاوروں کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی عربی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کیا جب کہ شاعروں اور ادیبوں سے متعلق متعدد مقالات بھی لکھے جو بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
امتیاز علی خاں عرشی کی تحقیقی کاوشوں اور ان کی بصیرت سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا مگر یہ بھی ہے کہ ان کی تحریروں پر بعض ناقدین نے اعتراض کرتے ہوئے اغلاط کی نشان دہی کی ہے مگر آج بھی عرشی کا نام اردو تحقیق کے چند بڑے ستونوں میں شامل ہے۔