منگل, مارچ 4, 2025
اشتہار

شاعری اور تنقیدی مضامین سے اردو ادب کو مالا مال کرنے والے فراق گورکھپوری

اشتہار

حیرت انگیز

اردو کے عہد ساز شاعر، مایہ ناز نقاد فراق گورکھپوری کی تصانیف ادبی دنیا کے لیے وہ خزانہ ہیں جس سے ہم آج بھی استفادہ کررہے ہیں۔ فراق نے شاعری اور تنقید کے میدان میں اپنی فکر و بصیرت اور ذہنِ رسا سے ادب کو نئے رجحانات دیے اور اپنے موضوعات کو وقیع بنایا۔ فراق گورکھپوری 1982 میں آج ہی کے روز چل بسے تھے۔

ان کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ تخلّص فراق اور وہ اپنے آبائی علاقے کی نسبت سے گورکھپوری کہلائے۔ رگھو پتی سہائے 28 اگست 1896ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ وہ اردو کے ایک شاعر منشی گورکھ پرشاد المتخلص بہ عبرت کے بیٹے تھے۔ والد اردو اور فارسی کے عالم اور ماہرِ قانون بھی تھے۔ یوں فراق کو شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا تھا اور گھر پر ہی انھوں نے اردو اور فارسی زبانیں‌ سیکھیں۔

فراق نے ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد انگریزی زبان میں ایم اے کیا اور پھر سول سروسز کا امتحان پاس کرلیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔ فراق کا مزاج ایسا تھا کہ ہفتوں کمرۂ جماعت میں داخل نہ ہوتے اور ان کی بعض ناپسندیدہ عادات نے بھی ان کی شہرت خراب کی تھی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں بہرحال ان کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔

بھارت کے اس شاعر اور نقاد کا مطالعہ وسیع تھا اور وہ اردو ہی نہیں انگریزی ادب پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو کو بھی اپنے تنقیدی موضوعات سے نئی راہ دکھائی اور جب ان کے مضامین کتابی شکل میں سامنے آئے تو ان کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی دو کتابیں اردو کی عشقیہ شاعری اور حاشیے تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں۔

ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بقول اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری غزل کی سرزمین بے رونق رہتی، اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ اور بے جان ایرانی روایتوں کی نقّالی کرتی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا اور حسن و عشق کا شاعر ہونے کے باوجود ان موضوعات کو نئے زاویے سے دیکھا۔ فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916ء میں جب ان کی عمر 20 سال تھی، انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ان کا کلام ادبی جرائد میں‌ شایع ہونے لگا اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

فراق کی نجی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 18 سال کی عمر میں ان کی شادی کشوری دیوی سے کر دی گئی تھی، لیکن یہ تعلق ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔ اس کے بعد والد کا انتقال ہوگیا جو فراق کے لیے کڑا وقت تھا۔ ان پر بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری آن پڑی۔ ادھر بے جوڑ شادی نے الگ انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں وہ انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوگئے اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920ء میں گرفتاری کے بعد 18 ماہ جیل میں گزارے۔ تاہم آزادی کے بعد فراق سیاست کا حصّہ نہیں رہے۔ فراق کی زندگی کا ایک بڑا المیہ ان کے اکلوتے بیٹے کی سترہ سال کی عمر میں خود کشی تھا جب کہ ان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے گھر جا بیٹھی تھیں، یوں فراق تنہائی کا شکار رہے۔ اس کے باوجود فراق نے اردو ادب کو اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کی صورت میں بیش بہا خزانہ دیا۔ انھیں ایسا شاعر مانا جاتا ہے جس نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ فراق نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ شاعری میں ان کا اپنا ہی رنگ تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

نئی دہلی میں‌ وفات پانے والے فراق گورکھپوری کو بھارت میں پدم بھوشن اور گیان پیٹھ جیسے اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں