آج ہم بہت آسانی سے اپنے موبائل فون کیمرے سے تصویر اور ویڈیو بنا سکتے ہیں اور یہ ٹیکنالوجی سبھی کی دسترس میں ہے، لیکن کیمرے کی مدد سے بنائی گئی تصاویر کو خاص تکنیک سے متحرک دکھانا کب ممکن ہوا اور پہلی فلم کس نے بنائی۔
دنیا کیمرہ اور متحرک تصاویر یا فلم کے حوالے سے لیومیئر برادرز اور تھامس ایڈیسن کے نام لیتی ہے اور عموماً انہی کو پہلی متحرک تصاویر یا فلم تیار کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ تاہم گزشتہ برسوں کے دوران ایک ڈاکیومنٹری سامنے آئی تھی جس کے مطابق ایسی پہلی فلم دراصل میں 1888 میں انگلینڈ کے شہر لیڈز میں بنائی گئی تھی۔ بدقسمتی سے اس کے فلم میکر اپنی حیثیت کو منوانے اور اپنی ایجاد کی تشہیر میں ناکام رہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایسا کرنا چاہتے تھے، مگر پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئے اور دنیا کی پہلی فلم کے موجد کے طور پر ان کا نام تاریخ میں رقم نہیں ہوسکا۔ ان کا نام لوئس لی پرنس تھا، اور آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ پہلی فلم تیار کرنے والے لوئس لی پرنس کہاں گئے اور ان پر کیا گزری۔ لوئس لی پرنس کو اکثر لوگ متحرک تصاویر کا موجد مانتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق لی پرنس کا کیمرہ دراصل سلسلہ وار تصاویر لیتا تھا جن کو بعد میں متحرک انداز میں پیش کیا جاسکتا تھا۔
لوئس لی پرنس کے کیمرے سے بنائی گئی فلم کو ’’Roundhay Garden Scene‘‘ کا نام دیا گیا ہے جو یوٹیوب پر موجود ہے۔ اس کا دورانیہ دو سیکنڈ ہے۔ اس فلم کو اکثر متحرک تصاویر کی ابتدا میں ایک سنگِ میل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم آج اصل فلم شاید دنیا میں کہیں دست یاب نہیں لیکن کچھ فریموں کی فوٹو گرافی کاپیاں اب بھی موجود ہیں جس نے ایک بحث کو جنم دیا ہے کہ آخر فلم کا پہلا موجد کسے تسلیم کیا جائے۔
اس عکس بندی کے واضح کرداروں میں لی پرنس کا بیٹا ایڈولف لی پرنس اور اس موجد کی ساس سارہ وائٹلی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ رہی کہ فلم بندی کروانے والی سارہ وائٹلی، اگلے دس دن بعد ہی چل بسی تھیں۔ یہ عکس بندی 14 اکتوبر 1888 کو اس وقت کی گئی تھی جب خاندان کے افراد اپنے لیڈز کے نواحی علاقے کے ایک باغ میں موجود تھے۔
یقیناََ لوئس لی پرنس نے اپنے لکڑی کے ڈبے سے یہ مناظر عکس بند کیے ہوں گے جو دراصل ان کا ایجاد کردہ کیمرہ تھا۔ اس موقع پر ان کے بیٹے اور ساس کے علاوہ ایک دوست اور سسر بھی موجود تھے جو اس کیمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ متحرک تصاویر ایڈیسن اور لومیئرز کی ایجاد کے سامنے آنے سے بہت پہلے کی ہیں۔ اسی بنیاد پر لی پرنس کو حرکت کرتی ہوئی تصاویر کا موجد کہا جانے لگا ہے۔
بریڈفورڈ کے نیشنل میڈیا میوزیم میں لی پرنس کا یہ تاریخی اہمیت کا حامل کیمرہ اور اس کی فوٹیج نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ لی پرنس نے پہلے 16 لنیز والا کیمرہ بنایا لیکن اس کے بعد سنگل لینز بنا لیا۔
شمال مشرقی فرانس کے شہر میٹز میں پیدا ہونے والے لی پرنس نے فزکس اور کیمسٹری کی تعلیم حاصل کی تھی اور بطور فوٹوگرافر اور پینٹر عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بعد میں وہ لیڈز کی ایک انجینئرنگ کمپنی میں ملازم ہوگئے۔ لی پرنس کی شادی اپنی کمپنی کے مالک کی بیٹی سے ہوئی۔ فوٹوگرافی اس زمانے میں ایک اہم ایجاد تھی جس کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا۔ لی پرنس اس کام میں گہری دل چسپی لینے لگے اور متحرک تصاویر پر تجربات کرنے لگے۔ مسلسل تجربات کے بعد وہ اس ٹیکنالوجی پر کام کرنے لگے جسے بعد میں فلم کہا گیا۔
لی پرنس نے باغ میں اپنے خاندان کے علاوہ لیڈز کے پل سے گزرتے ہوئے لوگوں کو فلم بند کرنے کے لیے ایک لینز والا کیمرہ استعمال کیا جب کہ وہ 16 لینز والا کیمرہ بھی بنا چکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ 1890 میں نیو یارک میں اپنی اس ایجاد سے حاصل کردہ تصویری نتائج کی پبلک اسکریننگ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن اپنے دو دوستوں کے ہمراہ سفر کے لیے ٹرین میں بیٹھے اور پھر ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ لی پرنس کی موت کے بعد قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور کئی مفروضے سامنے آئے جن میں کہا گیا کہ انھیں ایڈیسن نے اپنے راستے میں رکاوٹ سمجھا اور انھیں مروا دیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لی پرنس نے خود کشی کرلی تھی۔