کوثر نیازی ایک سیاست داں، مشیر اور وزیر کے طور پر خاصے سرگرم رہے بلکہ ان کا یہ سفر کئی اعتبار سے ہنگامہ خیز اور متنازع بھی رہا، لیکن وہ ایک عالمِ دین، ادیب و شاعر کے علاوہ عوامی حلقوں میں ایک زبردست مقرر کے طور پر بھی پہچانے جاتے تھے۔ دوسری طرف عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز تھے۔ وہ پاکستان کے مقبول ترین رومانوی اور مزاحمتی شاعر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر آمریت، غیر جمہوری رویوں، ناانصافی اور قدامت پرستی کے خلاف بھی متحرک تھے اور اسی لیے حکومتوں کے معتوب بھی ٹھیرے۔ ضیاالحق کے مارشل لا کے دور کے میں فراز کی احتجاجی شاعری بہت مقبول ہوئی۔ ان کی مولانا کوثر نیازی سے کبھی نہیں بنی۔
ادھر مولانا کوثر نیازی جب اطلاعات و نشریات کا مشیر اور بعد ازاں وزیر بنے تو انھیں بائیں بازو اور روشن خیال اہلِ قلم کی جانب سے تنقید اور سخت مخالفت بھی سہنا پڑی۔ پیشِ نظر قصّہ اسی دور کا ہے جب مولانا اور فراز اپنی فکر اور نظریات کی بنا پر آمنے سامنے تھے۔اس حوالے سے معروف ادیب، نقاد اور صحافی فتح محمد ملک کی تحریر سے یہ اقتباس پیشِ خدمت ہے۔
اُس زمانے میں احمد فراز مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات کے ایک ذیلی ادارے پاکستان نیشنل سینٹرز کے ہیڈ کوارٹرز میں کام کر رہے تھے اور مولانا کوثر نیازی اُن کے وزیر تھے۔ احمد فراز چونکہ مولانا کے افکار و کردار کو سخت ناپسند کرتے تھے اِس لیے اُنہیں ایک پرِ کاہ کی سی اہمیت دینے پربھی آمادہ نہ تھے۔ وہ انہیں شاعر ماننے سے انکاری تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مولانا کوثر نیازی کے مجموعۂ کلام کا پیش لفظ لکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ بات یہ ہے کہ احمد فراز نے عمر بھر اپنی شرائط پر کام کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب موریشیش میں منعقد ہونے والے ایک ادبی سیمینار میں پاکستان سے ایک شاعر اور ایک ادبی نقاد کی شرکت کا فیصلہ ہوا تو احمد فراز اور مجھے نام زد کیا گیا۔ یہ نام زدگی اُس وقت کے وزیرِ تعلیم سیّد مصطفی شاہ کو جزوی طور پر پسند نہ آئی۔ اُنہوں نے تجویز کیا کہ فراز کے ساتھ کوئی سندھی ادیب موریشیش بھیجا جائے۔ اُس زمانے میں فراز اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے چیئر مین تھے اور یوں سیّد مصطفی شاہ کے ماتحت تصور کیے جاتے تھے۔ مجھے پتہ چلا تو میں نے فراز سے کہا کہ شاہ صاحب کی بات مان لی جائے۔ اِس پہ فراز کا پارہ مزید تیز ہو گیا۔ اُس نے لکھ بھیجا کہ یا ہم دونوں جائیں گے یا پھر ہم میں سے کوئی بھی نہیں جائے گا۔ مصطفی شاہ صاحب مرحوم بڑی فراخ دلی کے ساتھ ہنس دیے:’جاؤ بھائی جاؤ دونوں جاؤ‘۔ جب وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ تھے تب بھی وزیرِ تعلیم کو یہی گلہ رہتا تھا کہ فراز میرے ڈسپلن میں نہیں رہتے، مجھ سے بالا بالا اوپر نوٹ لکھ بھیجتے ہیں اور اُوپر سے ہی مجھے احکامات بھجوا دیتے ہیں۔
جب احمد فراز پاکستان نیشنل سینٹرز میں کام کر رہے تھے، تب ایک بار مولانا کوثر نیازی نے اُنھیں اسلام آباد سے قلات تبدیل کر دیا تھا جس پر اُنھوں نے عدالت کا دروازہ جا کھٹکھٹایا تھا۔ ہمارے وزرائے کرام بھی عجب معصوم مخلوق ہیں۔ نہیں جانتے کہ سچے شاعر اور دانشور کی شرائطِ کار شاعری متعین کرتی ہے نہ کہ ایسٹا کوڈ (مجموعۂ قواعدِ سرکار) مگر افسوس کہ یار لوگ قواعدِ سرکار کے نت نئے دام بچھانے سے کبھی باز نہ آئے۔