ہمارا قافلہ حج اور زیارت کے لیے حِجاز جا رہا تھا۔ شہر کوفہ سے گزرے تو ایک شخص ننگے سر، ننگے پاؤں آیا اور ہمارے قافلہ میں شامل ہو گیا۔ اس کے پاس مال و اسباب کچھ نہ تھا۔
بہت آہستہ آہستہ بے فکر ہو کر چل رہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ نہ تو میں خچر پر سوار ہوں نہ اونٹ کی طرح مجھ پر سامان لدا ہوا ہے۔ نہ میں کسی رعایا کا آقا ہوں اور نہ کسی بادشاہ کا غلام۔ نہ میرے پاس کچھ موجود ہے اور نہ میرا کچھ سامان غائب ہوا ہے جس کا مجھے کوئی غم ہو۔ میں آزادی سے سانس لیتا ہوں اور بے فکری سے زندگی بسر کرتا ہوں!
ایک اونٹ سوار دولت مند شخص نے اس سے کہا، اے درویش تم کہاں جاؤ گے؟ بہتر ہے کہ واپس لوٹ جاؤ، تم راستہ کی تکلیف برداشت نہ کر سکو گے اور موت کے منہ میں بھی جاسکتے ہو۔ مگر اس نے بات نہ مانی اور قافلہ کے ساتھ جنگل میں چلنے لگا۔ جب ہم مکّہ معظّمہ کے قریب ایک مقام نخلہ محمود میں پہنچے تو وہاں اسی مال دار اونٹ سوار کو اچانک موت نے آن لیا۔ لوگ اس کے گرد جمع ہوگئے اور افسوس کا اظہار کرنے لگے۔
وہ درویش اس کے سرہانے آ کر بیٹھا اور کہنے لگا: ہم سفر کی تکلیف اٹھاتے رہے مگر مرے نہیں اور تم نے آرام کے ساتھ سفر کیا پھر بھی مر گئے۔
یہ تو یوں ہوا کہ ایک شخص رات بھر جاگ کر ایک بیمار کی تیمار داری کرتا رہا اور روتا رہا۔ لیکن جب صبح ہوئی تو بیمار اچھا ہو گیا اور اس کی تیمار داری کرنے والا کسی عارضے کے سبب مر گیا۔
شیخ سعدی کی یہ حکایت بتاتی ہے کہ ہمیں علم نہیں کہ کس لمحے ہماری موت آجائے اور ہم اکثر دوسروں کو دیکھ کر ان کے مستقبل کے بارے میں باتیں بنارہے ہوتے ہیں۔