آسیہ بیگم کو پری چہرہ کے نام سے فلمی دنیا میں وہ پہچان ملی کہ اداکارہ ایک دہائی تک لاکھوں دلوں پر راج کرتی رہیں۔ اپنی لاجواب اداکاری سے فلم بینوں کو متاثر کرنے والی آسیہ بیگم 9 مارچ 2013 کو کینیڈا میں انتقال کر گئی تھیں۔
اداکارہ آسیہ پاکستان میں 70ء کی دہائی کے دوران پنجابی فلموں کی مقبول ترین ہیروئنوں میں سے ایک تھیں۔ انھوں نے اپنے ایک دہائی پر مشتمل فلمی سفر میں دو سو فلموں میں کام کیا اور اپنے دورِ عروج میں جب فلمی دنیا کو خیر باد کہا تو ان کی دو درجن سے زائد فلمیں زیر تکمیل تھیں۔ اداکارہ آسیہ بیگم 1951ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا اصل نام فردوس تھا۔ پنجابی فلموں کے عروج پر انھوں نے ہر مقبول فلمی ہیرو کے ساتھ کام کیا اور 1977ء میں بہترین اداکارہ اور 1979ء میں بہترین معاون اداکارہ کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
آسیہ کو بچپن سے ہی فن اداکاری اور میوزک سے بے پناہ دل چسپی تھی اور اسی شوق کی خاطر انھوں نے فلم کا میدان اپنے لیے چنا۔ آسیہ نے اُردو فلموں سے اپنے کریئر کا آغاز کیا تھا۔ ان کی پہلی فلم ”انسان اور آدمی‘‘ تھی جو سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ نامور ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ریاض شاہد نے اپنی فلم ’’غرناطہ‘‘ میں آسیہ کو کاسٹ کیا تھا جو اس وقت گمنام اداکارہ تھی مگر دبلی پتلی، گورا رنگ اور تیکھے نین نقش والی اس لڑکی کی یہ فلم باکس آفس پر ہٹ ہوگئی تھی۔ اس کے بعد آسیہ کو جس فلم نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا وہ رنگیلا کی ”دل اور دنیا‘‘ تھی۔ اس فلم میں آسیہ نے اندھی لڑکی کا کردار ادا کیا۔ 1971ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو زبردست کام یابی ملی اور آسیہ کو عروج حاصل ہوا۔ ہدایت کار کیفی مرحوم کی فلم ’’جگا گجر‘‘ میں آسیہ نے ایک جٹی کا کردار ادا کر کے بھی شائقین کو اپنا مداح بنا لیا تھا۔
اداکارہ کو ان کی بہترین پرفارمنس کے علاوہ ان کے حسن و جمال کے سبب پری چہرہ کہا جانے لگا۔ اخبار اور فلمی رسائل میں انھیں اسی لقب سے لکھا اور یاد کیا جاتا تھا۔ آسیہ کی مشہور فلموں میں ”بھریا میلہ، میدان، چالان، غنڈہ ایکٹ، نوکر ووہٹی دا، حشر نشر، بدتمیز، دلدار صدقے، یارانہ، ریشماں جوان ہو گئی، ایماندار، حسینہ مان جائے گی، وعدہ، بڑے میاں دیوانے، قانون شکن، تم سلامت رہو، جیرا بلیڈ اور محبوب میرا مستانہ‘‘ شامل ہیں۔
آسیہ کو زیادہ تر پنجابی فلموں کی آفرز ہوئیں۔ پنجابی فلموں میں سلطان راہی کے ساتھ ان کی جوڑی خوب پسند کی گئی۔ ”مولا جٹ، وحشی جٹ، گوگا شیر، شیر میدان دا، مولا جٹ ان لندن، اتھرا پتر‘‘ سمیت درجنوں فلموں میں آسیہ اور سلطان راہی کو اکٹھا دیکھا گیا۔ اداکارہ نے مشہور اداکار اقبال حسن،لالہ سدھیر اور شاہد کے ساتھ بھی کام کیا۔
اردو فلموں کی بات کی جائے تو آسیہ کی ”سہرے کے پھول‘‘ کا ذکر ضرور کیا جائے گا جس میں اداکار ندیم ان کے ہیرو تھے۔ یہ لالی وڈ کی کام یاب فلم تھی جس کے گانوں کی ہر طرف دھوم مچ گئی تھی۔ اداکارہ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے متعدد تجربے بھی کیے اور آسیہ کو کئی مقبول اداکاروں کے ساتھ ہیروئن کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ وہ کام یابی سے یہ مرحلہ طے کرتی رہیں اور پھر کامیڈین اور ولن آرٹسٹوں کے ساتھ بھی انھیں مرکزی کردار سونپا گیا۔ مصطفیٰ قریشی کے ساتھ بھی ان کی جوڑی بنائی گئی۔ 90ء کی دہائی میں آسیہ شادی کرکے کینیڈا چلی گئی تھیں اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔