منگل, مارچ 11, 2025
اشتہار

شہزادی بمبا: گم نامی کی زندگی گزارنے والی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی

اشتہار

حیرت انگیز

لاہور کے گورا قبرستان میں ایک قبر کے سرہانے خالصہ راج کا امتیازی نشان دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ نشان سکھوں کے دورِ حکومت اور شاہی خاندان کی یاد تازہ کرتا ہے۔ یہ قبر شہزادی بمبا سدرلینڈ کی ہے جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی تھیں۔

بمبا سدرلینڈ لاہور میں وفات پانے والی سکھ شاہی خاندان کی آخری فرد تھیں۔ ان کا انتقال 10 مارچ 1957ء کو ہوا۔ یہ وہ شہر تھا جہاں سے ان کے دادا کے بعد دلیپ سنگھ نے پنجاب پر حکومت کی جو ان کے والد بھی تھے۔ شہزادی کو نوجوانی میں گویا لاہور سے عشق ہو گیا تھا۔ وہ دنیا کے کسی بھی امیر اور ترقی یافتہ ملک کی شہریت حاصل کرسکتی تھیں، مگر انھوں نے ایسا نہیں‌ کیا اور یہیں‌ وفات پائی۔

رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد 1848ء میں انگریزوں نے پنجاب فتح کر کے اس وقت کے مہاراجہ دلیپ سنگھ کو ایک معاہدے کے تحت برطانیہ بھیج دیا تھا۔ دلیپ سنگھ اور ان کے خاندان کو وہاں ملکہ کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ بعدازاں دلیپ سنگھ نے مذہب تبدیل کرلیا اور عیسائیت قبول کرکے برطانوی اشرافیہ کا حصّہ بن گئے، لیکن وہ ایک عیاش اور شاہ خرچ انسان بھی تھے جس نے کثرتِ مے نوشی اور ایسے ہی دوسرے کاموں میں‌ اپنی زندگی برباد کرلی اور اپنا مال و متاع اڑا دیا۔ 1895ء میں دلیپ سنگھ پیرس میں چل بسے۔ سابق حکم راں دلیپ سنگھ اپنی پہلی بیوی سے چھے بچّوں کے والد بنے۔ انہی میں سے ایک بمبا صوفیہ جنداں (Bamba Sofia Jindan) تھیں۔ 29 ستمبر 1869ء کو لندن میں پیدا ہونے والی شہزادی بمبا کی تعلیم و تربیت مشنری اسکول میں ہوئی۔ بمبا کو شروع ہی سے اپنے بزرگوں اور ان کی سلطنت کا احوال جاننے میں دل چسپی رہی تھی۔ وہ اپنی ہندوستانی شناخت کو کھوجنا چاہتی تھیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے دادا کی سلطنت کے خاتمے اور اپنے خاندان کی یوں برطانیہ منتقلی کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر سکی تھیں۔

رنجیت سنگھ کا راج شمال مغرب میں درّۂ خیبر سے مشرق میں دریائے ستلج تک اور برصغیر پاک و ہند کی شمالی حد سے جنوب کی طرف صحرائے تھر تک پھیلا ہوا تھا۔ لاہور اس سکھ حکم راں‌ کی سلطنت کا صدر مقام تھا اور اسی شہر سے دلیپ سنگھ کو لندن جانا پڑا تھا۔ ان کی بیٹی بمبا سدرلینڈ نے 88 برس کی عمر پائی۔ لاہور میں مقیم بمبا سدرلینڈ اس عمر میں ضعف اور ناتوانی کا شکار ہوچکی تھیں۔ شہزادی کا جسم فالج سے متاثر تھا۔ شہزادی نے لندن میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور بعد میں امریکی شہر شکاگو کے ایک میڈیکل کالج میں تعلیم مکمل کی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں شہزادی بمبا نے ہندوستان آنا جانا شروع کیا اور لاہور میں سکھ دور کی تاریخ کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ شاہی خاندان کی یادگاروں نے ان کو اسی شہر میں قیام کرنے پر مجبور کر دیا۔ سنہ 1915 میں شہزادی بمبا کی شادی لاہور میں‌ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ڈیوڈ سدرلینڈ سے ہوئی جو 1939 میں انتقال کر گئے۔ لاہور میں سابق شہزادی کی رہائش گاہ ’گلزار‘ کے نام سے مشہور تھی جس میں انھوں نے کئی اقسام کے گلاب کے پودے لگائے ہوئے تھے اور یہ ان کا شوق ہی نہیں وقت گزاری کا ایک ذریعہ بھی تھا۔ اگرچہ وہ کئی سال پہلے لاہور آچکی تھیں، لیکن یہاں مستقل قیام کا اٹل فیصلہ تقسیمِ ہند کے موقع پر کیا اور پنجاب میں اپنے والد دلیپ سنگھ کی جائیداد اور اس سے جڑے دیگر امور سنبھال لیے۔

شہزادی بمبا کو آرٹ سے گہرا لگاؤ تھا اور ان کے پاس بیش قیمت پینٹگز کا ایک خزانہ تھا جسے شہزادی کی وصیت کے مطابق ملازمِ خاص پیر کریم بخش سپرا کو سونپ دیا گیا۔ اس میں واٹر کلر، ہاتھی کے دانتوں پر پینٹنگز، مجسمے اور آرٹ کے دیگر شاہکار شامل تھے۔ لندن میں سکھ خاندان کے نوادرات کو وصیت کے مطابق جب ملازم پیر کریم بخش نے حکومتِ پاکستان کے تعاون سے لاہور منگوانے کی درخواست دی تو اس کا احترام کیا گیا اور ایک ہفتے میں نوادرات لاہور پہنچ گئے۔ ان اشیا کو شہزادی بمبا کی رہائش گاہ میں محفوظ کر دیا گیا۔ بعد میں اسے قومی اثاثہ قرار دے کر لاہور کے شاہی قلعے میں منتقل کیا گیا۔ شہزادی بمبا کی شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال سے بھی ملاقاتیں‌ رہیں جو ان کی بے انتہا عزّت کرتے تھے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں