بدھ, مارچ 12, 2025
اشتہار

ممتاز شیریں: اردو ادب کی ناقابلِ فراموش شخصیت

اشتہار

حیرت انگیز

ممتاز شیریں اردو ادب کی وہ افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ہیں جن کی تخلیقات اور ادبی بصیرت کا اعتراف اپنے وقت کے ہر بڑے اہلِ قلم نے کیا۔ ممتاز شیریں نے ادبی سفر کے ساتھ زندگی کے آخری ایّام میں بطور مشیر وفاقی وزاتِ تعلیم کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

ممتاز شیریں نہ صرف یہ کہ خود بہت اچھی قلم کار اور صحافی تھیں، مطالعے کا نکھرا ستھرا ذوق بھی رکھتی تھیں بلکہ ان کی جستجو تھی کہ ادیبوں شاعروں کے ساتھ ساتھ با ذوق قارئین تک ہر زبان کی معیاری کتابیں بھی پہنچیں۔ چنانچہ انھوں نے اعلیٰ پیمانے پر کتابوں کی ایک فرم بھی کراچی میں قائم کر رکھی تھی۔

اُردو ادب کو ممتاز شیریں نے اپنے ادبی شعور، تخلیقی حساسیت اور ذہانت سے عمدہ افسانے اور معیاری تنقید کے ساتھ بہترین تراجم بھی دیے۔ اسی طرح مشاہیر، ہم عصر ادیبوں اور احباب کے نام اُن کے خطوط نہ صرف ان کی شخصیت کے مختلف النوع پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہیں بلکہ اپنے دور کے حالات، ادبی تاریخ و رجحانات کے ساتھ علم و ادب کی دنیا میں مسائل اور سرگرمیوں کا احاطہ بھی بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔

ممتاز شیریں 11 مارچ 1973ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ ممتاز شیریں سے ایک ملاقات کے عنوان سے میرزا ادیب لکھتے ہیں: "ممتاز شیریں جس وقت دنیائے ادب میں داخل ہوئیں تو ان کی حیثیت افسانوں کے ایک سخت گیر نقاد کی تھی۔ ان کے مضامین پڑھے تو پتہ چلا کہ یہ خاتون اردو کے افسانے تو رہے ایک طرف انگریزی، روسی اور فرانسیسی افسانوی ادب کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کرچکی ہیں۔

ان کا مقالہ” تکنیک کا تنوع” سویرا میں چھپا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ یہ مقالہ ایک ایسے ذہن کی پیداوار معلو ہوتا تھا جس نے برسوں افسانے کی متنوع تکنیک سمجھنے کی کوشش کی اور دنیا کے نام ور افسانہ نگاروں کے مشہور افسانوں کو غور و فکر کی گرفت میں لے چکا ہے۔ یہ مضمون اور ان کے دوسرے مضامین پڑھ کر میں نے ان کے بارے میں ایک خاص تصویر بنالی تھی اس کے بعد ان کے افسانے چھپنے لگے معلوم ہوا کہ وہ جتنی اچھی نقاد ہیں اسی قدر ماہر فن افسانہ نگار بھی ہیں۔

اپنی افسانوی تحقیقات میں وہ زندگی کی ہر حقیقت کو، وہ کتنی بھی تلخ اور مکروہ کیوں نہ ہو، اس کی پوری جزیات کے ساتھ پیش کردیتی تھیں۔ جنتی موضوعات کے سلسلے میں ان کا قلم خاص طور پر بڑا بے باک تھا۔ سعادت حسن منٹو ان کا پسندیدہ افسانہ نگار تھا۔ اس سے بھی ان کے تخلیقی رجحانِ طبع کا اندازہ ہو جاتا ہے۔”

انگڑائی، ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ تھا جو مشہور ادبی مجلّہ ساقی (دہلی) میں 1944ء میں شائع ہوا تھا۔ اس افسانہ کو اس وقت کے اہل قلم نے بہت سراہا۔ ممتاز شیریں نے بعد میں‌ افسانہ نگاری کے ساتھ اپنی تنقید اور تراجم سے بھی ادب کی دنیا کو مالا مال کیا۔ وہ معروف ادبی جریدے نیا دور کی مدیر بھی رہیں۔ ممتاز شیریں کا شمار ان خواتین ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے روایتی سوچ کو مسترد کردیا اور اپنے بے باکی سے اپنے افکار کا اظہار ادبی تحریروں میں کرتی رہیں۔

12 ستمبر 1924ء کو آندھرا پردیش کے ایک علاقہ ہندو پور میں پیدا ہونے والی ممتاز شیریں کا بچپن ننھیال میں گزرا۔ ان کے نانا میسور میں مقیم تھے اپنی نواسی کو تعلیم و تربیت کی غرض سے اپنے رکھ لیا تھا۔ ممتاز شیریں نہایت ذہین اور قابل طالبہ ثابت ہوئیں۔ گھر کا ماحول بھی علمی و ادبی تھا جس نے انھیں بھی مطالعہ کا شوقین بنا دیا اور پھر وہ لکھنے لکھانے کی طرف راغب ہوئیں۔ 1942ء میں ممتاز شیریں کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی۔ ان کے شوہر تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں سرکاری عہدے پر فائز رہے اور بیرونِ ملک بھی قیام کیا۔ ممتاز شیریں نے پاکستان میں کراچی کو اپنا مستقر ٹھہرایا تھا۔

ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا، حدیثِ دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو، نہ نوری نہ ناری کے نام سے شایع ہوئے۔ انھوں نے جان اسٹین بک کے مشہور ناول دی پرل کا اردو ترجمہ دُرِشہوار کے نام سے کیا تھا۔ ممتاز شیریں کی آپ بیتی اور خطوط بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں