بدھ, مارچ 12, 2025
اشتہار

آغا شاعر قزلباش: زبان داں، مشہور شاعر اور ادیب

اشتہار

حیرت انگیز

متحدہ ہندوستان میں آغا شاعر قزلباش ایک استادِ فن اور زبان داں کے طور پر شہرت اور اپنے ہم عصروں میں امتیاز رکھتے تھے۔ انھوں نے نثر و نظم کی مختلف اصناف میں‌ اپنی حیثیت کو منوایا۔ آغا صاحب کی قابلیت اور علمی استعداد کا عالم یہ تھا کہ شاعرِ‌ مشرق علّامہ اقبال اور ان جیسے کئی بڑی شخصیات بھی زبان و بیان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔

11 مارچ 1940ء کو آغا شاعر قزلباش انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ شاعر، ادیب اور ڈرامہ نویس تھے۔ وہ اردو کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگردوں‌ میں سے تھے، لیکن ان کی شاگردی اختیار کرنے سے پہلے ہی آغا صاحب زبان دانی اور مشاعروں میں‌ اپنی خوش گوئی کی وجہ سے مشہور ہوچکے تھے۔ ان کے ہم عصر زبان و بیان اور شاعری میں ان کی فصاحت و برجستگی کے معترف رہے۔ آغا شاعر قزلباش کے شاگردوں کی تعداد بھی سیکڑوں‌ میں‌ تھی جو ہندوستان بھر سے تعلق رکھتے تھے اور براہِ راست یا بلواسطہ بھی ان کے علم سے استفادہ کرتے رہے۔

شاعر اور ادیب آغا صاحب 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ ان کے جد اعلٰی ان سپاہیوں میں تھے جو نادر شاہ کی فوج میں شامل ہو کر دہلی آئے اور وہیں بس گئے۔ آغا شاعر کے والد آغا عبد علی بیگ بھی شاعر تھے اور فدائی تخلص کرتے تھے۔ دہلی کے کشمیری گیٹ کے محلّہ کھڑکی ابراہیم خاں میں سکونت پذیر یہ کنبہ آسودہ حال تھا۔ وہ اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے۔ آغا صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ عربی اور قرآن کا درس گھر پر لیا جب کہ فارسی ان کے گھر کی زبان تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی کی مشہور درس گاہ اینگلو عربک اسکول میں داخلہ ہوگیا اور وہیں سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا، اسکول کے زمانہ میں ہی مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اسی زمانہ میں آغا صاحب کی ماں وفات پاگئیں اور باپ کی دوسری شادی کے بعد وہ سوتیلی ماں کے ہاتھوں تنگ ہوتے رہے اور پھر انہیں گھر سے نکال دیا گیا۔ بعد میں انھوں نے اپنی علمی استعداد میں خود اضافہ کیا اور اپنے لکھنے پڑھنے کے شوق اور لگن کی بدولت کام یاب ہوئے۔ ان کا خط بہت عمدہ تھا اور اسی سے متاثر ہوکر ایک بیگم صاحبہ نے انھیں نہ صرف پناہ دی بلکہ اپنی غزلیں خوش خط لکھنے کا کام سونپ دیا۔ انہی کے توسط سے بعد میں وہ قدم جمانے میں کام یاب ہوئے اور دہلی کے مشاعروں میں ان کی شرکت لازمی ہوگئی۔ ان کی غزلیں گانے والیوں کے کوٹھوں میں گونجنے لگیں اور گلی کوچوں میں گائی جانے لگیں۔ بعد میں حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بنا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

گوناگوں صلاحیتوں کے مالک آغا شاعر قزلباش نے غزلوں کے علاوہ نظمیں، مرثیے اور منظوم تراجم بھی کیے۔ ڈرامہ اور انشائیہ نگاری کے ساتھ انھوں نے ناول بھی تحریر کیے۔ آغا شاعر قزلباش نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ اور عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا۔ ان کی نثر کا بھی ایک مجموعہ خمارستان کے نام سے شایع ہوا تھا۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزۂ گوش، دامنِ مریم اور پرواز شامل ہیں۔

آغا شاعر قزلباش کا ایک شعر بہت مشہور ہے

لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی

آغا شاعر کو آخری عمر میں مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا تھا، جگر اور معدہ جواب دے گئے تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد شاد نے ان کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر رکھا تھا جب کہ ریاست خیر پور سے بھی سالانہ وظیفہ پاتے تھے اور گزر بسر اسی پر تھی۔ وہ صفدر جنگ کے قریب قبرستان درگاہ شاہ مرداں میں سپردِ‌ خاک ہوئے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں