بدھ, مارچ 12, 2025
اشتہار

غزل بالکل غیر فطری چیز ہے…

اشتہار

حیرت انگیز

نام ور ادیب اور صحافی حمید اختر نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخِ بمبئی کے 1946-47ء کے اجلاسوں کی کارروائی بہ شکلِ روداد اور بحیثیت سیکرٹری رقم کی تھی جس کے مئی کے مہینے کے ایک اجلاس میں جوش ملیح آبادی بھی شریک تھے اور غزل جیسی صنف کی مخالفت میں خوب بولے۔

اس کارروائی کو قلم بند کرتے ہوئے حمید اختر جوش کی گفتگو ضبطِ‌ تحریر میں لاتے ہیں جس سے کچھ اقتباسات اہل ادب اور باذوق قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔

اس جلسہ میں غزل پر مباحثہ ہونے والا تھا اور اس میں غزل کے مخالف اور حامی شعرا اور ادیبوں میں سے جوش ملیح آبادی، ساغر نظامی، ڈائریکٹر بخاری، علی سردار جعفری، سجاد ظہیر، ظ۔ انصاری، مجروح سلطانپوری وغیرہ نے اس بحث میں نمایاں حصہ لیا۔ غزل کے حامیوں میں ڈائریکٹر بخاری، مجروح سلطانپوری اور ظ۔ انصاری نے اپنے خیالات ظاہر کیے۔ مخالفت میں جوش ملیح آبادی اورسردار جعفری بولے…

حمید اختر لکھتے ہیں مجروح سلطان پوری کے بعد جوش ملیح آبادی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا، اب تک نفس غزل پر روشنی ڈالی گئی۔ اردو کی اور باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ غزل کی تعریف ہے ” گفتگو کردن بازناں‘‘ یعنی عورتوں سے میٹھی میٹھی باتیں کرنا غزل کہلاتا ہے۔ غزل میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایک سے دوسرا شعر مختلف ہونا چاہیے۔ یہاں جو مسلسل غزل کا ذکر کیا گیا ہے وہ درست نہیں۔ اس لیے کہ فن نے ایسی غزلوں پر قطعہ کی مہر لگائی ہے۔ غزل تو وہی ہے جس کا ہر شعر دوسرے سے مختلف ہو۔ یعنی مطلع میں انتظارِ معشوق رہا ہے۔ حسن مطلع میں وصل کے مزے لوٹے جا رہے ہیں۔ جوش صاحب نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے اپنے مخصوص لہجے میں کہا، غزل ایک قسم کی خوردہ اندیشی اور خوردہ گوئی ہے جیسے ہار مونیم پر انگلیاں رکھ کر مختلف آوازیں نکالی جاتی ہیں اسی طرح غزل بھی ہارمونیم بازی ہے۔ انہوں نے کہا، نطق خیال کا داعی ہوتا ہے۔ بے ضرورت بولنے والوں کو لوگ بکواس کہتے ہیں۔ اسی طرح شعر بھی اس وقت ہونا چاہیے جب دل میں کوئی جذبہ کوئی خیال ذہن میں ہو لیکن غزل گو یونہی شعر کہتے رہتے ہیں۔ میرا دعویٰ ہے کہ غزل گو عاشق، عاشق بالکل نہیں ہوتے۔ ان کا عشق مصنوعی ہوتا ہے بلکہ ان کا معشوق اب تک پیدا ہی نہیں ہوا۔ جس معشوق پر ان کا ولی دکنی مرا تھا، یہ بھی اب تک اس پر مرے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر جذبے کی ایک عمر ہوتی ہے مگر مشاق شاعر ایک وقت میں بیس یا تیس شعر کہہ لیتے ہیں جو مختلف خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ
ایک وقت میں انسان پر مرکب جذبات کا اظہار نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ غزل گو شاعر واقعات کو اسٹور میں رکھتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر قافیے کی ٹارچ لے کر اسٹور میں گھس جاتے ہیں اور وہاں سے جس چیز کی ضرورت ہو نکال لیتے ہیں مگر ” بیمار کر دیا‘‘ وغیرہ جھوٹی نگینہ سازی ہے۔ قافیے اور ردیف کو ٹکرانے سے کبھی خوشبو پیدا نہیں ہوتی، اکثر بدبو پیدا ہوتی ہے۔

انہوں نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اب ذرا غزل گوؤں کے معشوق کو بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔ ان کو آج تک ایک بھی باوفا معشوق نہیں ملا حالانکہ مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اچھے، برے، باوفا، مگر یا تو ہمارے غزل گو دوست چھانٹ کر ایسے شجرۂ نسب والے معشوق تلاش کرتے ہیں جن کے خاندان میں وفاداری کا رواج نہیں ہوتا، یا خود اتنے بدصورت ہوتے ہیں کہ ان پر کوئی عورت عاشق نہیں ہوتی۔ پھر بیچاروں کو رقیب رو سیاہ ہمیشہ پیٹتا رہتا ہے۔ کبھی سننے میں آیا کہ کسی عاشق نے رقیب کو مارا ہو؟

انہوں نے کہا کہ فانی جو بہت بڑے غزل گو سمجھے جاتے ہیں، ان سے غزل پر ایک روز گفتگو ہورہی تھی۔ میں نے کہا بڑی مصیبت ہے جوتے میں کیل نکل آیا ہے اور بھئی آٹا بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ بے موسم بارش ہورہی ہے۔ کس قدر گرمی پڑرہی ہے… فانی حیران ہو کر بولے، کیا ہوا تمہیں؟ میں نے کہا غزل فرما رہا ہوں۔ بس یہی غیر مربوط خیالات غزل کہلاتے ہیں۔

آخر میں جوش صاحب نے کہا، میرؔ صاحب کو دیکھ لیجیے۔ ان کا دیوان ایک ریگستان ہے۔ چلتے چلتے راستے میں کیچڑ ملے گا۔ غلاظتیں آئیں گی، کھائیاں اور کھڈ ملیں گے۔ اسی طرح دس ہزار میل کی مسافت طے کر لیجیے، تب کہیں جاکر ایک پھول ملے گا۔ تقریر ختم کرتے ہوئے کہا، غزل بالکل غیر فطری چیز ہے اور یہ خوردہ گوئی اور خوردہ اندیشی فوراً ختم ہونی چاہیے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں