پیر, مارچ 17, 2025
اشتہار

علّامہ ابنِ خلدون: فلسفۂ تاریخ و عمرانیات کے بانی کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

مقدمہ، علّامہ ابنِ خلدون کی علمیت اور قابلیت کا ایک شاہکار ہے۔ ابنِ خلدون اسلامی دنیا کی ایک معتبر شخصیت ہیں اور اپنے علمی ذوق و شوق اور تصانیف کی وجہ سے عالمِ اسلام ہی نہیں پوری دنیا میں‌ مشہور ہیں۔

انھیں فلسفۂ تاریخ کا موجد و بانی ہی نہیں تسلیم کیا جاتا بلکہ عمرانیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے کئی مبادی اصول بھی اُنہی سے منسوب ہیں۔ علّامہ ابنِ خلدون کے خاندان اور حسب نسب کے حوالے سے تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ یمن کے قدیم شہر حضرُ الموت سے ان کے اجداد نے اندلس کے شہر قرمونہ ہجرت کی اور بعد میں تیونس کو اپنا مستقر ٹھیرایا جہاں 27 مئی 1332ء کو ابنِ خلدون پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانا علمی تھا اور ابنِ خلدون کو ابتدائی عمر ہی میں‌ جیّد علمائے کرام اور اہلِ علم کی صحبت نصیب ہوگئی۔ انھوں نے حفظِ قرآن اور ضروری دینی تعلیم کے ساتھ باقاعدہ علومِ اصول و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں فلسفہ، منطق، ریاضی اور لسانیات کا درس لیا۔

نوجوانی میں ابن خلدون نے ہجرت کے ساتھ سیّاحت کا شوق بھی پورا کیا اور اس دور میں انھوں نے مختلف اہلِ علم اور عبقری شخصیات سے بہت کچھ سیکھا اور اپنے علم کے زور پر دوسروں کی نظر میں بھی احترام اور مقام پایا۔ ان کے فہم و ذکا اور علم کا چرچا اس قدر ہونے لگا کہ شاہانِ وقت اور امرا ان کے قریب ہونے لگے۔ انھیں سلاطین نے عزّت و شرف سے نوازا اور عہدوں پر فائز کیا۔ اسی سبب ان کے حاسد اور مخالف بھی پیدا ہوگئے اور ایک موقع پر انھیں قید میں‌ بھی ڈالا گیا۔

ابنِ خلدون کی کئی تصانیف کا آج نام و نشان نہیں ملتا، لیکن مقدمہ کے بعد سب سے مشہور کتاب’’ تاریخِ ابنِ خلدون‘‘ ہے، اس کے علاوہ، روزنامچے اور مشاہدات بھی ابنِ خلدون نے قلم بند کیے ہیں۔ وہ جب اسکندریہ اور پھر قاہرہ پہنچے تو خلافتِ عباسیہ میں‌ شہرۂ آفاق جامعہ ازہر میں مدرّس مقرر ہوئے۔ اسی زمانے میں‌ انھوں نے اپنے اہلِ خانہ کو تیونس سے قاہرہ اپنے پاس بلوایا، مگر کہتے ہیں کہ جہاز کو سمندر میں‌ حادثہ پیش آیا اور وہ سب موت کے منہ میں‌ چلے گئے جس کی اطلاع ملنے کے بعد صدمے سے دوچار ابنِ خلدون سب کچھ چھوڑ کر حج کے لیے روانہ ہوگئے۔ تاریخی تذکروں میں آیا ہے کہ انھوں نے ایک سال مکّہ مکرمہ میں قیام کیا اور مصر لوٹ آئے جہاں آج ہی کے دن 1406ء میں وفات پائی۔

جہاں تک سائنس اور فلسفۂ تاریخ کا تعلق ہے عربی لٹریچر میں آج ابن خلدون کا نام بقائے دوام حاصل کر چکا ہے۔ جدت طرازی، فکر کی گہرائی اور وسعتِ نظری ابن خلدون کی امتیازی خصوصیات ہیں۔

”مقدمہ ابن خلدون‘‘ دیباچہ تمہید اور چھ ابواب پر مشتمل ہے، جس میں اس نے فلسفۂ تاریخ سے متعلق یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ تاریخ بادشاہوں، سلطنتوں اور جنگوں ہی کا نام نہیں بلکہ تاریخ نام ہے ان وجوہات کے تجسس اور اس کے جاننے کا جو سماجی انقلابات اور اقوام عالم کے رست خیز کے عقب میں کار فرما رہتی ہیں۔ تاریخ پر اس نقطۂ نگاہ سے بحث کرنے سے ابن خلدون کا منشا یہ تھاکہ تاریخ کو ایک محدود اور تنگ دائرے سے اٹھا کر سائنس کے بلند اور ارفع مقام پر لاکھڑا کیا جائے۔ اس تصنیف کے پہلے باب میں وہ سوسائٹی پر عمومیت کے ساتھ اور نسل انسانی کے تنوع اور مختلف طبقات زمین پر خصوصیت کے ساتھ بحث کرتے ہیں۔ باب دوئم میں مصنف خانہ بدوش اور نیم وحشی اقوام کے تہذیب و تمدن پر بحث کرتے ہیں جب کہ تیسرے باب میں بتایا گیا ہے کہ صحرا نشین قبائل میں باہمی اتحاد و یگانگت کا راز رشتۂ خون یا اور کسی ایسی ہی محکم وجہ اشتراک میں مضمر ہے۔ باب چہارم بڑے بڑے شہروں کے معرض وجود میں آنے کے اسباب، ان کی سلطنتوں سے باہمی ربط اور اضلاع پر اثر اور ان سے متعلق دیگر امور پر مشتمل ہے۔ پانچویں باب میں قومی بقا کے ذرائع اور ممالک میں خوش حالی کے حوالے سے شعبہ جات اور کئی نکات زیر بحث لائے گئے ہیں۔

ان سے قبل ان موضوعات پر کسی نے بھی اتنے مبسوط انداز سے بحث و تمحیض نہیں کی اور نہ ہی کوئی تصنیف اس سلسلہ میں سامنے آئی۔ اگرچہ قبل ازیں یونانی فلسفیوں نے اس موضوع کو جزوی طور پر موضوع تحریر بنایا، تاہم ان کے ہاں اس مضمون کی کوئی مستقل حیثیت نہیں تھی۔ قوموں کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ابنِ خلدون نے جن موضوعات پہ قلم اٹھا کر شہرتِ دوام حاصل کی ان میں نظریہ عصبیت، قوموں کے عروج و زوال اور ان کے اسباب، انسانی اخلاق، اخلاق کا تجارت پر اثر، تجارت کی اقسام، معاشرہ و ثقافت، نظریہ ریاست، ریاست کی اقسام سے لے کر امامت، قانون، فکرِ معاش اور فلسفۂ تعلیم تک الغرض ہر وہ موضوع جس کا تعلق کہیں نہ کہیں بھی معاشرہ سے متصل و منسلک ہو اس پر اپنے علم اور مشاہدے کی بنیاد پر ٹھوس اور منطقی انداز میں‌ بات کرنے کی کوشش کی ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں