پیر, مارچ 17, 2025
اشتہار

بادشاہ کے تین سوال

اشتہار

حیرت انگیز

کسی ملک کا بادشاہ اکثر باغ کی سیر کو جاتا اور اپنے مصاحبوں‌ سے کچھ وقت کے لیے الگ ہو کر تالاب کے کنارے بیٹھ جاتا اور مختلف امورِ‌ سلطنت اور دوسرے معاملات پر غور و فکر کرتا رہتا۔

بادشاہ کچھ عرصہ سے یہ سوچنے لگا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر مجھے یہ معلوم ہو جایا کرے کہ کوئی بہترین کام کرنے کا صحیح وقت کیا ہے۔ وہ کون لوگ ہیں جن کی مجھے سخت ضرورت ہے اور وہ کون سے معاملات ہیں جن پر فوری توجہ دینی چاہیے؟

ایک روز یہ خیال آیا تو بادشاہ نے بلا تاخیر اپنے وزیر کو حکم دیا کہ پوری سلطنت میں اعلان کروا دے کہ جو شخص بادشاہ کے ان تین سوالوں کے جواب دے گا اور اسے مطمئن کر دے گا، خوب انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ ملک کے کونے کونے میں‌ منادی کرا دی گئی۔

عام لوگوں اس اعلان کو حیرت اور دل چسپی سے سنا مگر چند ہی تھے جنھوں نے قسمت آزمانے کا قصد کیا البتہ ملک کے بڑے بڑے عالم فاضل، شاعر و ادیب، فلسفی اور ذہین و عقل مند لوگ بڑے اعتماد سے محل کا رخ کرنے لگے۔ روز کوئی نہ کوئی دربار میں‌ موجود ہوتا اور بادشاہ کے سامنے اپنے جواب رکھتا، مگر کئی روز گزر گئے اور ان میں سے کوئی بھی بادشاہ کو اپنے جوابات سے مطمئن نہ کر سکا۔ بادشاہ اس مشق سے بیزار ہوگیا تو ایک وزیر نے اسے ایک درویش کے بارے میں بتایا اور کہا کہ بادشاہ کو اُس بزرگ کی خدمت میں حاضری دینا ہوگی جو ایک سنسان جنگل میں رہتا ہے اور صرف عام آدمیوں سے ہی ملاقات کرتا ہے۔

بادشاہ کو اُس درویش سے ملاقات کرنے کے لیے عام آدمی یا روپ دھارنا پڑا یعنی معمولی کپڑے اور جوتی پہن کر بادشاہ اپنے مصاحبوں‌ اور چند سپاہیوں کے ساتھ اُس جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ درویش کی کٹیا سے کچھ دوری پر بادشاہ اپنے گھوڑے سے اتر گیا کیوں کہ آگے اسے تنہا ہی جانا تھا۔

بادشاہ اس بزرگ کی جھونپڑی کے قریب پہنچا تو اس وقت وہ اپنی جھونپڑی کے سامنے زمین کی گُڑائی کر رہا تھا۔ بزرگ کی نظر بادشاہ پر پڑی تو حسبِ عادت سلام کیا اور دوسرے ہی لمحے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ بادشاہ نے درویش کی خدمت میں بڑے ادب سے عرض کیا۔

’’اے بزرگ! میں آپ کے پاس تین سوال لے کر حاضر ہوا ہوں، امید ہے کہ آپ مجھے جواب دے کر مطمئن کرسکیں‌ گے۔ بادشاہ نے بزرگ کا اشارہ پاکر تینوں‌ سوال اس کے سامنے دہرا دیے۔

درویش نے بادشاہ کے تینوں سوال بہت غور سے سنے لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ پھر زمین کی گڑائی شروع کر دی۔

آپ تھک گئے ہوں گے، لائیے پھاؤڑا مجھے دے دیجیے۔ تھوڑی دیر یہ کام میں کرلیتا ہوں۔‘‘ بادشاہ نے بزرگ سے پھاؤڑا لیتے ہوئے کہا۔ پھاؤڑا بادشاہ کو تھماتے ہوئے بزرگ خود زمین پر بیٹھ گیا۔

جب بادشاہ دو کیاریاں گوڑ چکا تو اس نے پھر اپنے سوال دہرائے، لیکن درویش نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اُٹھ کھڑا ہوا اور بادشاہ سے پھاؤڑا لینے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے صرف اتنا کہا۔’’اب تم دَم بھر آرام کرو اور مجھے تھوڑا کام کرنے دو۔‘‘

لیکن بادشاہ نے بزرگ کو پھاؤڑا نہیں دیا اور زمین کی گڑائی جاری رکھی۔ اِس طرح وقت گزرتا گیا۔ دھیرے دھیرے شام ہو گئی۔ انجام کار بادشاہ نے زمین پر آخری پھاؤڑا مارتے ہوئے کہا۔

’’محترم بزرگ! میں آپ کے پاس اپنے تین سوالوں کے جواب لینے آیا تھا۔ اگر آپ میرے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے تو کہہ دیجیے تاکہ میں اپنے گھر لوٹ جاؤں۔ ‘‘

بزرگ نے اس مرتبہ پھر بادشاہ کی بات کو گویا نظر انداز کردیا اور جواب دینے کی بجائے پیچھے مڑتے ہوئے بولا۔

’’دیکھو، کوئی آدمی اِدھر ہی بھاگا ہوا آ رہا ہے۔ آؤ دیکھیں، وہ کون ہے؟‘‘

بادشاہ نے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ایک آدمی جنگل سے جھونپڑی کی طرف بھاگا آ رہا ہے۔ وہ شخص اپنے ہاتھوں سے اپنا پیٹ دبائے ہوئے ہے اور خون اُس کے ہاتھوں کے نیچے سے بہہ رہا ہے۔ وہ شخص کراہتا ہوا بادشاہ کے قریب پہنچ کر زمین پر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔

بادشاہ اور درویش نے اُس آدمی کے زخم کو غور سے دیکھا۔ اس کے پیٹ پر بڑا سا زخم تھا۔ بادشاہ نے جہاں تک ہو سکا اس کے زخم کو اچھی طرح صاف کیا اور اس پر اپنے رو مال اور درویش کے انگوچھے سے پٹی باندھی۔ بڑی مشکل سے اس کا خون بہنا بند ہوا۔

اب سورج ڈوب چکا تھا۔ ٹھنڈک بھی بڑھ چلی تھی۔ اس لیے بادشاہ نے اس بزرگ کی مدد سے زخمی کو جھونپڑے کے اندر لے جاکر چار پائی پر لٹا دیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ زخمی شخص سو گیا۔

بادشاہ بھی دِن بھر کی دوڑ دھوپ اور کام کی وجہ سے اِتنا تھک گیا تھا کہ دہلیز پر ہی سو گیا۔

صبح جب بادشاہ کی آکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ چارپائی پر پڑا ہوا زخمی اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے اُسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے۔

’’مجھے معاف کر دیجیے، میرے آقا۔ ‘‘ اُس زخمی نے بادشاہ سے التجا کی۔

’’میں تم کو نہیں جانتا اور جب جانتا نہیں تو معاف کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ بادشاہ نے جواباً کہا۔

’’میں آپ کا دشمن ہوں۔ آپ نے میرے بھائی کو قتل کرا دیا تھا اور اس کی جائیداد ضبط کر لی تھی۔ میں نے عہد کیا تھا کہ میں آپ کو قتل کر دوں گا۔ کل جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ اس جنگل میں‌ بزرگ درویش سے اکیلے ملنے گئے ہیں تو میں نے طے کیا کہ آپ کو واپسی پر راستے میں ہی قتل کر دوں گا، لیکن پورا دن گزر گیا اور آپ واپس نہیں لوٹے تو میں آپ کا پتہ لگانے کے لیے اپنے ٹھکانے سے باہر آیا۔ جلد ہی آپ کے محافظ سپاہیوں سے میری مڈبھیڑ ہو گئی۔ انھوں نے مجھے پہچان لیا اور ان کے حملے میں زخمی ہونے کے بعد میں کسی طرح بھاگ نکلا، لیکن اگر آپ میرے زخموں پر پٹی نہ باندھتے تو میں زیادہ خون نکل جانے کی وجہ سے مر جاتا۔ میں نے آپ کو قتل کرنا چاہا، لیکن آپ نے میری جان بچا لی۔ اب اگر میں زندہ رہا تو ساری عمر غلام بن کر آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ مجھے معاف کر دیجیے۔‘‘

بادشاہ دشمن سے اتنی آسانی سے صلح کر کے اور اُسے دوست بنا کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اُس کو معاف ہی نہیں کیا، بلکہ اُس سے یہ بھی کہا۔ ’’میں اپنے خادموں اور شاہی طبیب کو تمہاری دیکھ بھال اور علاج کے لیے بھیج دوں گا اور تمہاری جائیداد بھی واپس کر دوں گا۔‘‘

زخمی آدمی سے رخصت ہو کر بادشاہ جھونپڑی سے باہر آیا اور بزرگ کی تلاش میں نظر دوڑائی کہ جانے سے پہلے ایک بار پھر اپنے سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اس نے دیکھا ایک جانب وہ درویش ان کیاریوں میں بوائی کر رہا تھا جو ایک روز پہلے گوڑی اور بنائی گئی تھیں۔ بادشاہ درویش کے پاس پہنچا اور بولا۔

’’بزرگوار! میں آخری بار اپنے سوالوں کے جواب کی درخواست کرتا ہوں۔‘‘

بزرگ نے کہا ’’تم جواب پا چکے ہو، لیکن شاید تمہاری سمجھ میں نہیں آیا۔ خیر میں تفصیل سے بتاتا ہوں۔ اگر تم نے کل میری بزرگی پر ترس کھا کر کام میں‌ میرا ہاتھ نہ بٹایا ہوتا اور اپنے راستے چلے گئے ہوتے تو وہ آدمی تم پر حملہ کر دیتا، اس لیے وہ وقت بہت اہم تھا جب تم کیاریاں گوڑ رہے تھے۔ میں بہت اہم آدمی تھا اور میرے ساتھ نیکی کرنا سب سے اہم کام تھا۔

بعد کو جب وہ آدمی بھاگ کر ہم لوگوں کے پاس آیا تو وہ بڑا اہم وقت تھا کیونکہ تم اس کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ اگر تم اس کے زخموں پر پٹی نہ باندھتے تو وہ تم سے صلح کیے بغیر مر جاتا۔ اس لیے وہ اہم آدمی تھا اور جو کچھ تم نے اُس کے ساتھ کیا وہ بہت اہم کام تھا۔

اس لیے یاد رکھو کہ ایک ہی وقت بہت اہم ہے اور وہ ہے ’’اب‘‘ یعنی موجودہ وقت۔ اس لیے کہ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں کوئی موقع اور کوئی طاقت حاصل رہتی ہے۔

’’سب سے اہم آدمی وہ ہے جس کے ساتھ تم ہو، اِس لیے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ پھر کبھی اُس سے معاملہ پڑے گا یا نہیں …

اور سب سے اہم کام یہ ہے کہ اس کے ساتھ نیکی کی جائے، کیوں کہ انسان کو اسی مقصد سے یہ زندگی عطا ہوئی ہے۔‘‘

اِتنا کہہ کر وہ بزرگ پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ بادشاہ کچھ دیر کھڑا سوچتا تھا اور پھر مسکراتے ہوئے ایک نظر بزرگ پر ڈالی اور اس راستے پر نکل گیا جہاں اس کے مصاحب اور محافظ اس کے منتظر تھے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں