یہ ہزاروں سال پرانی بات ہے جب دھرتی پر انسان، جانور اور پرندے اکٹھے رہتے تھے۔ اس دور میں جنگل آج کی طرح سمٹے ہوئے نہیں تھے اور انسانی آبادی بھی یوں پھیلی ہوئی نہ تھی۔ ہر طرف سبزہ اور ہریالی تھی اور چرند پرند کے ساتھ انسان بھی جگہ جگہ چھپر بنا کر رہا کرتے تھے۔
مزید دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں
اگر اس بات کو مزید سمجھنا ہو تو یوں سمجھو کہ زمین کا وسیع رقبہ درختوں اور سبزے کے ساتھ شفاف ندی اور دریاؤں پر مشتمل تھا۔ انسانوں نے گاؤں، قصبے اور شہر آباد نہ کیے تھے اور اس کے لیے درختوں کو نہیں کاٹا تھا۔ کئی اقسام کے پرندے اور چوپائے ہر طرف نظر آتے تھے۔ انسان جنگلوں سے پھل، شہد اور جڑی بوٹیاں حاصل کرتے تھے۔ ٹھوس غذا کھانے کے لیے شکار بھی کرنا پڑتا اور اس کے لیے جنگل کے جانوروں اور پرندوں پر ان کی نظر ہوتی۔ جانور اور پرندے بھی جنگلوں میں زندگی بسر کرتے اور انھیں بھی کھانے پینے اور زندہ رہنے کا سامان جنگلوں سے ہی کرنا پڑتا۔ ایک نظام تھا فطرت کا جو جاری و ساری تھا۔
ایک مرتبہ جانوروں اور پرندوں کا انسانوں سے جھگڑا ہو گیا۔ انھیں شکایت ہوئی کہ انسانوں نے جانوروں کا شکار کرتے ہوئے ان کے کھانے کے وسائل گھٹانا شروع کر دیے ہیں۔ پرندوں کو بھی انسانوں سے شکایت ہوئی کہ انھیں مار کر کھا جاتے ہیں۔ چڑیوں کو پالنے کے لیے قید کر لیتے ہیں۔ دھیرے دھیرے انسانوں اور جانوروں کے بیچ جھگڑے بڑھنے لگے۔ اسی غصہ میں اکثر کئی جانوروں، خاص طور پر شیر، بھالو اور بھیڑیوں نے آدمیوں پر حملے کیے۔ کبھی کبھی بدمعاش لکڑبگھے لوگوں کے بچے اٹھا لاتے اور انھیں کھا جاتے تھے۔
“تم لوگ اگر جانوروں کو مارو گے تو ہم کیا کھائیں گے؟” شیروں نے غصّہ سے دہاڑتے ہوئے کہا۔ دراصل انسانوں کے ایک گروہ نے جنگل میں بڑی تعداد میں ہرن، سانبھر اور چیتل مارے تھے۔ شیروں نے بھوکے ہونے پر کئی لوگوں پر حملہ کر دیا۔
روزانہ بڑھتے ہوئے جھگڑوں کو نپٹانے کے لیے جنگل میں ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں انسانوں کے علاوہ سبھی جانور اور پرندے شریک ہوئے۔
آج جھگڑوں کو نپٹانے کا فیصلہ ہونا ہے۔ ایک طرف درندے جیسے شیر، بھیڑیے، لکڑ بگھّے اور جنگلی کُتّے بیٹھے۔ ان سے تھوڑی دور پر ہرن، چیل، سانبھر اور بھینسے چوکنے کھڑے تھے۔ کہیں گھاس میں خرگوش، گلہری اور دوسرے چھوٹے جانور د بکے ہوئے تھے۔ پیڑوں پر بہت کم پرندے بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ زیادہ تر نہیں آئے کیونکہ ہوا میں اُڑنے کی وجہ سے وہ انسانوں اور جانوروں کے ہاتھ کم ہی لگتے ہیں اس لیے پرندے اس جھگڑے میں پڑنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ یوں سمجھو کہ ان کو انسانوں سے خطرہ کم تھا تو اس میٹنگ کی اہمیت بھی ان کے لیے کم ہی تھی۔
” تم لوگ ہمارا شکار کرتے رہتے ہو جب کہ ہم تمھارا شکار نہیں کرتے ہیں ۔” جانوروں نے انسانوں سے شکایت کی۔ یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ جانور شاید ہی کبھی انسانوں کا شکار کرتے ہیں۔
” لیکن ابھی لکڑ بگھّے اور بھیڑیے کئی بچوں کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ لوگوں نے شکایت کی۔ شیر نے کھڑے ہو کر کہا۔
“پھر فیصلہ کر لو کہ انسان اور جانور الگ الگ رہیں گے تا کہ کوئی جھگڑا ہی نہ ہو۔“
یہ بات سنتے ہی تمام بھیڑیوں نے ہاؤں ہاؤں کرتے ہوئے شیر کا ساتھ دیا۔ اُدھر چیتل اور ہرن وغیرہ نے انسانوں کو جنگل سے چلے جانے کے لیے کہا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اس طرح کم سے کم انسانوں کے شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔ باقی جنگل کے درندوں کا نوالہ بننا تو ان کا مقدر ہی ہے۔ یہ فیصلہ ہو جانے کے بعد انسانوں نے جنگل چھوڑ دیے۔ وہ کچھ جگہوں پر پیڑوں اور زمین کو صاف کرنے کے بعد کھیتی باڑی کرنے لگے۔ لیکن یہ بات بھی طے ہوئی کہ انسان جنگلوں سے شہد اور جڑی بوٹیاں لینے آتے رہیں گے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم لوگ جانوروں کا شکار نہیں کرو گے۔“ شیر نے راجا ہونے کا فرض نبھایا۔
جانور بھی ہماری بستی میں نہیں آئیں گے۔ وہ ہمارے کھیتوں میں چرنے کے لیے ہرگز نہ آئیں۔ آدمیوں نے کہا۔ وہاں موجود پرندوں نے دیکھا کہ ان کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔ چڑیوں کو کوئی فکر بھی نہیں کہ وہ ہوا میں اڑتی اور پیڑوں پر گھونسلہ بنا کر رہتی تھیں۔ انھیں کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ جنگل کے پپیڑوں پر رہیں یا بستی میں پیڑوں پر بسیرا کریں۔ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسانوں اور جانوروں میں کیا سمجھوتہ ہوتا ہے۔ درخت پر بیٹھے توتے نے کہا۔
” اور کیا ؟ ہمیں تو انسان اور جانور دونوں سے خطرہ رہتا ہے۔” کبوتر نے توتے کی ہاں میں ہاں ملائی۔
” لیکن ہم کہاں جائیں؟” ایک مور نے اداس ہو کر کہا۔ ہم تو چھوٹی چڑیوں کی طرح اڑتے نہیں۔ مور کی بات صحیح تھی کیونکہ وہ بھاری بھر کم پرندہ ہے جو بہت کم اور بس تھوڑا اڑتا ہے۔
آدمیوں نے مور کی بات سنی تو کہنے لگے۔ ہمارے لیے پرندے بھی جانور ہیں۔ وہ بھی جنگلوں میں رہیں۔ ہماری بستیوں میں صرف انسان رہیں گے۔“
جانوروں کی طرف سے ہاتھی نے کہا ” ہمیں پرندوں کے جنگل میں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہاتھی کی بات سن کر سبھی جانوروں نے رضا مندی دی۔ وہاں دیکھتے ہی دیکھتے یہ طے ہو گیا کہ سبھی پرندے بھی جنگلوں میں ہی رہیں گے۔
مور نے اپنی بات دہرائی ہمیں تو کھیتوں کھلیانوں اور باغوں میں رہنے میں زیادہ مزا آئے گا۔“
یہاں لڑائی ختم کرنے کے لیے فیصلہ ہورہا ہے۔ اس میں تمھاری پسند اور ناپسند کا کوئی سوال نہیں ۔” جنگلی کتے نے رال ٹپکاتے ہوئے کہا۔
ہاں تم کیوں چاہو گے کہ ہم بستیوں میں رہیں۔ مور نے پلٹ کر جواب دیا۔ وہ جانتا ہے کہ کتے، بھیڑیے اور شیر بھی موروں کا اکثر شکار کر لیتے ہیں۔ کئی چڑیوں کو بہت افسوس ہوا کہ انسان انھیں اپنی زندگی سے نکال رہے ہیں۔ مگر بستی بن جانے کے بعد کئی چڑیاں گھریلو کہلائی جانے لگیں۔ گوریّا تو لوگوں کے آنگن میں دیکھی جاتی۔ اُسے جنگل سے زیادہ بستی میں رہنا راس آرہا تھا۔ اسی طرح کبوتر اور فاختہ بھی گھروں کی منڈیروں پر بیٹھتے۔ انھیں بھی جنگل میں رہنے میں اتنا مزا نہیں آتا تھا جتنا کہ انسانوں کے ساتھ آنے لگا۔
ہم تمھاری منڈیروں پر بیٹھ کر کائیں کائیں نہیں کریں گے تو تمھیں مہمانوں کے آنے کی خبر کیسے ہوگی ؟ کوے نے انسانوں سے کہا۔
پھر ہماری چہچہاہٹ کیسے سنو گے؟ بلبل نے اُداسی سے کہا جو ہمیشہ چہکتی دیکھی گئی۔ اُسے بھی اس فیصلے کے بعد بستیوں کو چھوڑ کر جنگلوں میں رہنا جو پڑتا۔
ہم تو تمھارے کام آتے ہیں۔ مور نے آدمیوں سے کہا “ہم سانپوں کو مار ڈالتے ہیں جن سے تمھیں ڈر لگتا ہے ۔“
لوگوں کو یہ بات پتا تھا کہ مور سانپوں کے دشمن ہوتے ہیں۔ پھر بھی کہنے لگے۔
تم ہمارے کھیتوں سے اناج بھی کھاتے ہو۔ یہ سنتے ہی مور چُپ ہو گئے۔ تو پھر فیصلہ ہو گیا انسانوں نے بیٹھک سے جاتے ہوئے کہا۔ ” چڑیوں کے بارے میں بعد میں دیکھیں گے۔
ابھی تو انھیں جنگل میں ہی رہنا ہوگا۔“
جانوروں نے بھی چڑیوں سے کہا تم لوگوں کو کیا پریشانی ہے؟ آسمانوں میں اڑو اور پیڑوں پر گھونسلوں میں رہو۔“ یہ سن کر ایک چڑیا نے چِڑتے ہوئے کہا ” اور ہوا کھاؤ!”
مجبوری میں سبھی پرندے جنگلوں میں واپس چلے آئے۔ ان میں زیادہ تر جنگی پھلوں پر گزارہ کرنے لگے۔ اس کے علاوہ زمین میں کیڑے مکوڑے کھاتے۔ یہی موروں کے ساتھ ہوا۔ انھیں بھی دانے دُنکے کی جنگلوں میں کوئی کمی نہیں۔ لیکن درندوں کے شکار ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ یہی بات موروں نے جنگل کی بیٹھک میں رکھی۔
“تمھیں یہ خطرہ تو انسانوں سے بھی ہوتا ہے۔ وہ بھی شکار کرتے اور چڑیوں کو کھاتے ہیں۔“
شیر را جانے سمجھایا۔ حالانکہ اس کی نیت میں کھوٹ تھا۔ وہ بھی بھوکے ہونے پر شتر مرغ اور مور جیسے بھاری پرندوں کو کھا جاتا تھا۔ لیکن چھوٹی چڑیوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی بلکہ وہ اپنے دکھ درد بتانے لگیں۔ ایک کبوتر نے کہا۔ عجیب بات ہے کہ کسی انسان پر فالج گر جائے تو وہ ہمارا خون مالش کے لیے استعمال کرتا ہے۔ فاختہ بی نے بھی اسی طرح کی بات کی ۔ کبوتر اور فاختہ کا گوشت گرمی پیدا کرنے والا مانتے ہیں۔ اس لیے ہمارا شکار کرتے ہیں۔
” تو پھر خوش رہو جنگل میں ۔ بھیڑیے نے غراتے ہوئے کہا۔ یہاں تمھارا شکار نہیں ہوتا۔
” ہاں ۔ اگر کبھی لومڑی دبے پاؤں آتی ہے تو ہم پُھر سے اڑ جاتے ہیں ۔ چڑیوں نے جنگل میں رہنے میں ہی اپنی بھلائی مان لی۔
اب بھلا مور کیا کہتے؟ وہ بے چارے اُداس ہو کر بیٹھک سے چلے گئے۔ پھر برسات کی پھواریں آئیں جنگل کے پیڑ پودوں اور گھاس میں جیسے نئی زندگی آگئی۔ پانی برسنے سے پھول، پتیوں میں بھی جان پڑ گئی۔ اس وقت ہلکی رم جھم ہو رہی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی مست ہوا چلنے لگی۔ ایسے سہانے موسم میں بھلا مور خود پر قابو کیسے رکھ پاتے؟ وہ مستی میں ناچنے لگے اپنے خوبصورت پنکھ پھیلائے لیکن انھیں افسوس ہورہا تھا کہ جنگل میں ان کا ناچ دیکھنے اور خوش ہونے والا کوئی نہیں۔ جنگل کے جانوروں نے کیا چڑیوں نے بھی کوئی دھیان نہیں دیا۔
اسی وقت سے موروں کے خاندان میں یہ مشہور ہوگیا کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا!