برطانوی دور حکومت میں قائم کی گئی سینٹرل جیل بنوں کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں ایک ایسا مسلمان قیدی بھی تھا جس کی قبر بھی انگریزوں نے اسی جیل میں بنائی۔
برطانوی راج کے دوران 1930 میں احتجاج کی پابندی کے باوجود مظاہرہ کرنے پر مقامی رہنما قاضی فضل قادر اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
قاضی فضل قادر گرفتاری کے دوران انگریز پولیس کے بہیمانہ تشدد سے شدید زخمی ہوگئے تھے اور کچھ دیر بعد ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے تھانے میں ہی شہید ہوگئے۔
برطانوی اہلکاروں کو اس مسلمان قیدی قاضی فضل قادر پر اتنا شدید غصہ تھا کہ ان کی میت بھی ان کے لواحقین کے حوالے نہیں کی گئی تھی۔
قاضی فضل قادر کی شہادت کے بعد ان کی قبر سینٹرل جیل بنوں میں بنائی گئی، اس کے بعد ان پر مقدمہ چلایا گیا اور انہیں قید کی سزا سنائی گئی۔ انگریز سامراج کے ہاتھوں شہید ہونے والے بنوں کے قاضی فضل قادر کی قبر آج بھی پابند سلاسل ہے۔
بعد ازاں سال 2004 میں جمعیت علما اسلام سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا اکرم خان درانی نے اپنے دور حکومت میں بنوں جیل کی پرانی عمارت منہدم کر کے وہاں بہت خوبصورت قاضی فضل قادر پبلک پارک بنا دیا۔
پارک میں ان کی قبر کو ماربل ٹائلز سے پختہ کیا گیا ہے لیکن قبر کے گرد زنجیریں اب بھی موجود ہیں، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پارک کی تزئین و آرائش کا کام ختم ہوتا گیا اور وہ پارک آج خود تباہ حالی کا شکار ہے۔