جانے وہ کون سے ممالک ہیں جہاں سیاست کو عبادت اور عوام کی خدمت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں کے قابل و باصلاحیت شہری کوچۂ سیاست میں اس لیے قدم رکھتے ہیں کہ اپنے وطن کے لیے کچھ کرسکیں اور قوم کا وقار بلند کریں۔ ان کے حقوق کی پاس داری کرتے ہوئے ان کو بہت سی سہولیات فراہم کرسکیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں سیاست کا تصور اس کے عین برعکس ہے۔
اردو ادب میں طنز و مزاح پر مبنی نثر یا شاعری میں بھی ہمیں پاکستان کی بے ڈھنگی سیاست اور بگڑے ہوئے سیاست دانوں کی کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ لطائف یا مزاحیہ ادب ہمیں غور و فکر کا موقع دیتے ہوئے مسکرانے پر بھی مجبور کر دیتا ہے۔ یہاں ہم ایک ایسا ہی شگفتہ پارہ نقل کررہے ہیں جو معروف طنز و مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے قلم سے نکلا ہے اور ان کی کتاب ’کتنے آدمی تھے؟‘ میں شامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
انگریزی کا لفظ Politics (سیاست) دو الفاظ کا مرکب ہے، یعنی Poly بمعنی ”بہت سے“ اور tics بمعنی ”خون چوسنے والے ننھے ننھے کیڑے!“ سیاست کے اس لفظی تجزیے سے سیاست داں کی جبلّت پر بخوبی قیاس کیا جا سکتا ہے، خواہ اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطّے سے ہو۔ اس جبلّت کا ایک رخ یہ ہے کہ بھوٹان سے لے کر یونان تک سیاست داں کو اپنے ارد گرد منڈلانے والے اہل غرض یا گھیر گھار کر لائے گئے مٹھی بھر من موجی زیادہ اور اپنے دھرنوں، جلسوں میں خوار ہونے والے کچھ زیادہ لوگ بہت زیادہ نظر آتے ہیں۔ وہ ایک ایک کرسی پر 20 سے 25 آدمیوں کو بیٹھے دیکھتا ہے اور ہزار 1500 آدمیوں کے ”ٹھاٹھیں مارتے سمندر“ سے جھوم جھوم کر خطاب کرتا ہے۔ یہی 1500 لوگ جب اس کے پیچھے ”مارچ“ کی صورت میں جمع ہوتے ہیں، تو وہ ملین سے ہرگز کم نہیں ہوتے۔ یہ اس کی نظر کا قصور نہیں، بلکہ ذہن کا فتور ہے جو اسے صحیح بات کے شعور سے محروم کر دیتا ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ جب جلسے، دھرنے اور مارچ مخالف پارٹی کے ہوں تو سیاست داں کی آنکھوں میں کالا موتیا اتر آتا ہے۔ اب اسے 20 کی جگہ ایک آدمی نظر آتا ہے، کرسیاں خالی خالی دکھائی دیتی ہیں اور ریلیاں جعلی۔ اخبارات دونوں پارٹیوں کے مؤقف شائع کر کے عوام کے لئے مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں کہ
کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ