عالمی سیاست کی تاریخ میں ابراہم لنکن کا نام ان کی جدوجہد، صبر و استقامت اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ لنکن اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ’’ناکام ہونا نہیں بلکہ اس پر دل چھوڑ بیٹھنا اصل ناکامی ہے۔‘‘ ابراہم لنکن نے زندگی میں کئی بار ناکامیوں کا سامنا کیا مگر یہ ناکامیاں ان کا راستہ نہ روک سکیں اور وہ آگے بڑھنے میں کام یاب ہوئے۔
ابراہم لنکن کو امریکا کی تاریخ کا عظیم ترین صدر ہی نہیں بلکہ اس ملک کا غریب صدر بھی کہا جاتا ہے جس نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور حالات کا مقابلہ کرکے دنیا میں شہرت پائی۔ 1865ء میں ابراہم لنکن کو آج ہی کے دن قتل کر دیا گیا تھا۔
سیاسیات کے طالبِ علم ضرور ابراہم لنکن کے نام و مرتبے سے واقف ہوں گے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے اس پہلے سیاہ فام صدر کی زندگی محنت اور جدوجہد سے عبارت ہے۔
ان کا ایک بڑا سیاسی کارنامہ سیاہ فام افراد کی آزادی کے لیے کوشش اور اس معاملے پر ہونے والی خانہ جنگی کے دوران ملک کو ٹوٹنے سے بچانا تھا۔ ابراہم لنکن نے غربت کا طعنہ اور سیاست کے میدان میں اپنی ہر طرح مخالفت کے باوجود کام یابیاں سمیٹیں۔
12 فروری 1809ء کو ابراہم لنکن امریکا میں کینٹکی میں بسنے والے ایک معمولی کاشت کار کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ دو سال کے تھے جب ان کے والد ایک مقدمہ میں اپنی زمین ہار گئے اور اس گھرانے کے لیے مشکلات کا آغاز ہوگیا۔ یہ خاندان ریاست انڈیانا منتقل ہوگیا جہاں وہ ایک سرکاری زمین پر کیبن بنا کر اس میں رہنے لگے۔ اسی کیبن نما گھر میں لنکن بڑے ہوگئے۔ وہ صرف ایک سال ہی اسکول جاسکے اور بعد میں گھر پر اپنی سوتیلی ماں سے تعلیم حاصل کی۔
لنکن کی نوجوانی کا دور بھی غربت اور تکالیف جھیلتے ہوئے گزرا۔ انھوں نے کئی چھوٹے کاروبار کرنے کی کوشش کی، لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا، مگر ابراہم لنکن مایوس نہیں ہوئے۔ انھوں نے معاش کے لیے بھاگ دوڑ کے ساتھ وکالت پڑھنا شروع کی۔ وہ کام سے فارغ ہو کر کتابوں میں گم ہوجاتے اور اسی مستقل مزاجی اور محنت کا نتیجہ تھا کہ ابراہم لنکن کا شمار شہر کے کام یاب وکلا میں ہوا۔
ابراہم لنکن نے زندگی جینے کا گُر اپنے والد سے سیکھا تھا جو اپنی زمین سے محروم ہونے کے بعد محنت مشقّت کر کے کنبے کا پیٹ بھرتے رہے۔ انھوں نے زرعی زمین پر، جولاہے کے پاس کام کیا، اور جوتے کی مرمّت کرنا بھی سیکھا اور یہی پیشہ ان کے کنبے کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتا رہا۔ 1861ء میں ابراہم لنکن امریکا کے صدر بنے اور یہ وہ وقت تھا جب امریکی سینیٹ میں جاگیرداروں، تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ تھا۔ یہ لوگ سینیٹ میں اپنی برادری کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے۔ ابراہام لنکن نے صدر بننے کے بعد امریکا میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا، اور ایک حکم نامے کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزادی دے کر فوج میں شامل کیا، امریکی اشرافیہ ان اصلاحات سے براہِ راست متاثر ہو رہی تھی، چنانچہ یہ سب ابراہم لنکن کے خلاف ہو گئے۔ انھوں نے صدر کی کردار کشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سینیٹ کے اجلاس میں عموماً ابراہم لنکن کا مذاق اڑایا جاتا اور ان کی ہمّت توڑنے کی کوشش کی جاتی۔ لیکن ابراہم لنکن ڈٹے رہے۔ اس حوالے سے یہ واقعہ پڑھیے۔
ابراہم لنکن اپنے پہلے صدارتی خطاب کے لیے سینیٹ پہنچے اور صدر کے لیے مخصوص نشست کی طرف بڑھے تو ایک سینیٹر نے اپنی نشست سے ابراہم لنکن کو مخاطب کیا اور بولا، ”لنکن صدر بن کر بعد یہ مت بھولنا کہ ”تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا۔ “ اس پر ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ لنکن نے اس سینیٹر سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراء کے بھی جوتے سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا کہ امریکا میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے باپ سے جوتے بنواتے تھے، کیوں؟ اس لیے کہ پورے امریکا میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا باپ ایک موجد تھا، وہ اپنے بنائے ہوئے جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا۔ آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جوتا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جوتے بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا، مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے۔“ ابراہم لنکن کی تقریر ختم ہوئی تو پورے ہال پر سکوت طاری تھا۔
ابراہم لنکن کو فورڈ تھیٹر میں ڈراما دیکھنے کے دوران ایک شخص نے گولی مار دی تھی۔ امریکا کے مشہور صدر ابراہم لنکن کی زندگی سے ہمیں ایک بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ مفلسی کسی کے لیے نام و مرتبہ پانے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ محنت و لگن اور ارادے کی پختگی کے ساتھ اگر کوئی شخص اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہے تو کام یابی اس کے قدم ضرور چومتی ہے۔