بدھ, اپریل 16, 2025
اشتہار

سارتر: عظیم فرانسیسی فلسفی اور ادیب

اشتہار

حیرت انگیز

دنیا ژاں پال سارتر کو ایک عظیم فسلفی، ادیب و نقاد کے طور پر یاد کرتی ہے جنھوں نے اپنے نظریات اور افکار کی خاطر نوبل انعام کو ٹھکرا دیا تھا۔ سارتر نے کہا تھا کہ وہ اپنی پرانی شناخت کے ساتھ جینے کی خواہش رکھتے ہیں اور یہ اعزاز قبول کر کے اپنی پہچان نہیں کھونا چاہتے۔

اس فلسفی اور ادیب ژاں پال سارتر نے فرانس کے شہرۂ آفاق شہر پیرس میں 1980ء میں آج ہی کے دن اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے موند لی تھیں۔ سیاست اور سماج سے متعلق ان کی تحریریں‌ آج بھی افادی اور اہمیت کی حامل ہیں جب کہ ان کی ادبی تخلیقات بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ سارتر کو ان کے فلسفۂ وجودیت کے لیے پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے فرانس میں‌ سماجی اور معاشرتی زندگی کے ساتھ تنقیدی، پوسٹ کالونیل اور عالمی ادبیات پر ناقابلِ فراموش اور یادگار کام کیا۔ وجودیت وہ طرزِ فکر ہے جس نے بیسویں صدی میں خاص طور پر ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ سارتر نے اپنے وقت میں ادب کی کئی ایک اصناف میں کام کیا، تاہم اس کا بڑا حصہ تنقید اور سوانح عمری پر مبنی ہے۔ سارتر کے ڈرامے بنیادی طور پر علامتی تھے، جن سے سارتر کا فلسفۂ حیات اجاگر ہوتا ہے۔

سارتر 1905ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک سال کے تھے جب ان کے والد کا انتقال ہوا۔ سارتر کا بچپن اپنے نانا کے گھر میں گزرا، جہاں ایک بڑا کتب خانہ بھی تھا۔ یوں سارتر کو کم عمری ہی میں کتابوں اور مطالعے کا شوق ہو گیا۔ وہ سارا دن مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتے اور اپنے ملک کی سیاسی، سماجی حالت پر غور کرتے رہتے۔ اسی مطالعے اور غور و فکر کی عادت نے سارتر کو لکھنے پر آمادہ کیا۔ ژاں پال سارتر اپنے انٹرویوز میں بتاتے تھے کہ ان کو نوعمری ہی میں ادب کا چسکا پڑ گیا تھا اور لکھنے لکھانے کا شوق جنون کی حد تک بڑھ گیا تھا۔ فنونِ لطیفہ کے شائق و شیدا سارتر اچھے گلوکار اور پیانو نواز بھی تھے۔ کھیلوں کی دنیا سے سارتر نے باکسنگ میں‌ غیرمعمولی دل چسپی لی اور بطور باکسر مقابلے بھی کیے۔

جب دنیا سارتر کے افکار و نظریات سے آگاہ ہوئی تو انھیں ‘فرانس کا ضمیر’ کہا جانے لگا۔ یہ ان کی قدر و عظمت کا عوامی سطح‌ پر اعتراف تھا۔ سارتر کے روشن اور اجلے خیالات نے انھیں وہ بلند مرتبہ اور مقام عطا کیا جس کی مثال ان کے ہم عصروں میں نہیں ملتی۔ 70ء کے عشرے میں سارتر بینائی سے یکسر محروم ہوگئے تھے، لیکن اس معذوری کے باوجود انھوں‌ نے بھرپور زندگی گزاری۔ سارتر نے جہاں عملی جدوجہد سے فرانسیسی معاشرے میں شخصی آزادی کی شمع روشن کی، وہیں سماجی انصاف کے لیے کوشاں‌ رہے۔

ژاں پال سارتر درس وتدریس سے منسلک تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمن فوج نے سارتر کو گرفتار کر لیا تھا۔ وہ ایک سال تک نظر بند رہے اور ایک دن فرار ہوگئے۔ بعد میں‌ جب فرانس پر جرمنی نے قبضہ کیا تو سارتر نے اس کے خلاف مزاحمت میں آگے آگے رہے۔ جنگ کے بعد وہ بائیں بازو کے نظریات کا پرچارک بن کر ایک جریدہ نکالنے لگے، جو بہت مقبول ہوا۔ اس جریدے میں اپنے وقت کے مشہور فلسفی اور ادیب مارلو پونتی اور البرٹ کامیو کی نگارشات شائع ہوتی تھیں جو ملک میں نظریاتی بنیادوں پر انقلاب برپا کرنے کا سبب بنیں۔ سارتر کو فلسفۂ وجودیت کا بانی کہا جاتا ہے۔

فرانس کے اس عظیم فلسفی نے ادب کے میدان میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ ان کا پہلا ناول 1938ء میں شائع ہوا۔ وہ مارکسزم اور سوشلزم کے زبردست حامی رہے، لیکن کسی جماعت اور گروہ سے وابستہ نہیں ہوئے۔ سارتر نے جنگ کے خلاف تحریکوں میں سرگرم کارکن کی طرح اپنا کردار نبھایا۔ الجزائر پر فرانس کی یلغار، ویت نام میں کمیونسٹوں کے خلاف امریکیوں کی جنگ، عربوں کے خلاف فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کی جنگی مہمات اور خوں ریزی کے خلاف سارتر نے آواز بلند کی اور اس سلسلے میں‌ ہونے والے بڑے مظاہروں میں ہمیشہ صفِ اوّل میں‌ دکھائی دیے۔ تاہم سارتر کو ان کے عہد میں تنقید اور اپنے کام پر اعتراضات کا سامنا بھی کرنا پڑا جسے وہ کبھی خاطر میں نہ لائے۔

مشہور ہے کہ جب مسلم ملک الجزائر کی تحریکِ آزادی کی حمایت پر فرانس میں‌ ژاں پال سارتر کو گرفتار کیا گیا اور اس کی اطلاع ملی تو ملک کے حکم ران ڈیگال نے بے اختیار کہا، سارتر تو فرانس ہے، اسے کون قید میں رکھ سکتا ہے اور اسی وقت جیل کے دروازے کھولنے کا حکم جاری کر دیا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں