برصغیر کی یگانہ و بے مثل شخصیات میں ابوالکلام آزاد کا نام ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ انیسویں صدی عیسوی میں آزاد اپنے سیاسی اور دینی افکار کے ساتھ اپنی علمی و ادبی حیثیت میں ممتاز ہوئے۔ اردو ادب ہی نہیں آزاد نے صحافت کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں اور بڑا نام و مرتبہ پایا۔
سنہ 1912 میں آزاد نے ’الہلال‘ کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا تھا جس کے مضامین آزاد کی انقلابی فکر اور اداریے ان کے بے لاگ انداز کے سبب ہندوستان بھر میں زیر بحث رہے اور برطانوی حکومت نے دو سال کے اندر اندر الہلال پر بھاری جرمانے لگا کر اسے بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ آزاد کے جہاں بہت سے مداح اور حامی اس دور میں ان کے ساتھ تھے، وہیں ان کو ہندو ہی نہیں مسلمانوں کی طرف سے بھی مخالفت کا سامنا تھا۔ اسی دور کا ایک اداریہ جو آزاد نے تحریر کیا تھا، یہ ثابت کرتا ہے کہ انھوں نے ایک کڑے وقت میں بھی اپنے قلم کا سودا نہیں کیا اور اپنے ضمیر پر آنچ تک نہ آنے دی۔ الہلال پر اس کی پالیسیوں کی وجہ سے برطانوی انتظامیہ کی جانب سے مسلسل جرمانے کیے جارہے تھے اور اس وقت آزاد کو مالی عطیہ کے نام پر اپنا محتاج بنانے کی کوشش کی گئی جسے انھوں نے یکسر ٹھکرا دیا۔ 1912ء ہی میں تحریر کردہ اس اداریہ سے یہ سطور لائقِ مطالعہ ہیں۔ آزاد لکھتے ہیں:
ہمارے کاموں کے لیے سرمائے کی ضرورت اور اس کے انتظام کی فکر سے پریشان نہ ہوں اور ہم فقیروں کو ہماری حالت پر چھوڑ دیں۔ ان کی فیاضی کے ”الہلال“ سے بہتر اور مصارف موجود ہیں۔
ہم اس بازار میں سودائے نفع کے لیے نہیں، بلکہ تلاش زیاں و نقصان میں آئے ہیں، صلہ و تحسین کے نہیں، بلکہ نفرت و دشنام کے طلب گار ہیں، عیش کے پھول نہیں، بلکہ خلش و اضطراب کے کانٹے ڈھونڈتے ہیں، ایسوں کی اعانت کر کے آپ کا جی کیا خوش ہوگا؟ پھر ایسے عقل فرشوں کو آپ کی اعانت فرمائیاں کیا نفع پہنچا سکیں گی؟
پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ آپ کا یہ عطیہ کس مقصد سے ہے؟ اگر آپ مجھ کو خریدنا چاہتے ہیں، تو یہ رقم تو ایک گراں قدر قیمت ہے، میں تو اپنی قیمت میں گھاس کی ایک ٹوکری کو بھی زیادہ سمجھتا ہوں‘ شاید چاندی اور سونے میں پلے ہوئے امیروں کو خریدنے کے لیے اتنا روپیہ مطلوب ہو، ورنہ ہم جیسے خاک نشیں درویشوں کی تو پوری جماعت اتنے میں مل جائے، لیکن ہاں اگر اس سے میری رائے اور میرا ضمیر خریدنا مقصود ہو تو با ادب عرض ہے کہ کوہِ نور اور تخت طاؤس کی دولت بھی جمع کر لیجیے جب بھی وہ مع آپ کی پوری ریاست کے اس کی قیمت کے آگے کم ہے۔ یقین کیجیے کہ اس کو تو سوائے شہنشاہِ حقیقی کے اور کوئی نہیں خرید سکتا اور وہ ایک بار خرید چکا ہے۔
ہمارے عقیدے میں تو اخبار اپنی قیمت کے سوا کسی انسان یا جماعت سے کوئی رقم لینا جائز رکھتا ہے وہ اخبار نہیں، بلکہ اس فن کے لیے ایک دھبہ ہے۔ ہم اخبار نویسی کی سطح کو بہت بلندی پر دیکھتے ہیں اور ’امر بالمعروف و نھی عن المنکر‘ کا فرض الٰہی ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں۔ ”اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے جو خیر کی طرف بلایا کرے اور نیک کام کرنے کا کہا کرے اور برے کاموں سے روکا کرے اور ایسے ہی لوگ کام یاب ہوں گے۔“ (القرآن) پس اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے اور چاندی سونے کا تو سایہ بھی اس کے لیے سمِ قاتل ہے جو اخبار نویس رئیسوں کی فیاضیوں اور امیروں کے عطیوں کو قومی اعانت‘ قومی عطیہ اور اسی طرح کے فرضی ناموں سے قبول کر لیتے ہیں وہ بہ نسبت اس کے کہ اپنے ضمیر اور ایمان کو بیچیں بہتر ہے کہ بھکاریوں کی جھولی گلی میں ڈال کر اور قلندروں کی کشتی کی جگہ قلم دان لے کر ان امیروں کے در پر گشت لگائیں اور گلی کوچہ ”کام ایڈیٹر کا“ کی صدا لگا کر خود کو فروخت کرتے رہیں۔“