ہفتہ, اپریل 19, 2025
اشتہار

سید فخرالدین بلّے: برائی کا بدلہ بھلائی سے دینا ان کا شیوہ تھا!

اشتہار

حیرت انگیز

سَید فخرالدین بلّے میرے دوست بھی تھے اور رفیق کار بھی۔ ہماری رفاقت نصف صدی کا قصہ ہے۔

وہ کوئٹہ، قلات اور خضدار گئے، تو وہاں بھی ادبی ہنگامہ خیزیاں جاری رکھیں۔ سرگودھا، ملتان اور بہاول پورمیں بھی ان کے جنوں نے انہیں فارغ نہیں بیٹھنے دیا۔لاہوراورراولپنڈی میں بھی ادبی اور ثقافتی ہلچل مچائے رکھی۔ وہ ماحول کواپنے رنگ میں رنگنا جانتے تھے۔ اب دنیا میں نہیں رہے، لیکن اپنے احباب کے دلوں میں تابندہ ہیں۔ ایسی مرنجاں مرنج شخصیات کم کم ہی ہوتی ہیں۔

تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال اس شخصیت میں دستِ قدرت نے بہت سی شخصیات کو یک جا کر دیا تھا۔ ادیب، شاعر، دانش وَر، مقرر اور ماہر تعلقات عامہ ہی نہیں، وہ بہت کچھ تھے۔ وسیع العلمی اور قادرالکلامی ان کا طرّۂ امتیاز۔ جس رستے پر چلے، اپنی ذہانت اور علمیت کے گہرے نقوش چھوڑے۔ انسانیت ان کے انگ انگ میں تھی۔ مٹی کا قرض چکانا اپنا فرض سمجھتے تھے۔

سیّد فخرالدین بلّے کے ہاں مزاحمت کا رنگ بھی ہے اور تصوف کا رنگ بھی۔ دراصل ان کی شاعری کے کئی ادوار ہیں، ہر دور میں سوچنے کے انداز مختلف ہو سکتے ہیں اور ہیں بھی۔ اسی لیے ہمیں ان کی شاعری میں بہت سے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ اسے آپ ارتقائی سفر کانام بھی دے سکتے ہیں۔

وہ قادرُ الکلام شاعر تھے۔ نظم اور غزل دونوں میں کمالات دکھائے۔ خود نمائی سے بچتے رہے۔ اخبارات و جرائد میں بھی ان کی نگارشات ان کے نام سے بہت کم چھپیں۔ البتہ اکابرینِ ادب کی نظر میں وہ ایک دراز قامت علمی شخصیت تھے، اسی لیے وہ ان کی تخلیقی اور فکری توانائیوں کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔ مولوی عبدالحق کہا کرتے تھے سید فخر الدین بلّے کی نظم ہو یا نثر اس میں کوئی نقص نکالنا محال ہے۔ ان کے زیرِ سایہ بہت سے پودے پروان چڑھے اور ہم نے انہیں تن آور پیڑ بنتے دیکھا۔ ساری زندگی سر اٹھا کر جینے کی کوشش کی اور سر اٹھا کے ہمیشہ جیے بھی۔ ان کا اپنا ایک شعر اس حوالے سے میرے تاثرات کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔

سر اٹھا کر زمیں پہ چلتا ہوں
سر چھپانے کو گھر نہیں نہ سہی

چند حکم رانوں کے ساتھ بھی ان کے قریبی تعلقات رہے، لیکن انہوں نے اس کا کبھی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ کسی نے نوازنے کی پیش کش بھی کی تو انہوں نے اسے قبول نہ کیا، کیوں کہ یہ تو سر اٹھا کر جینے والوں میں سے تھے۔ ذاتی منفعت اٹھاتے تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے فائدہ ہی نہیں اٹھایا۔ وہ ذوالفقار بھٹو کے وزارت خارجہ کے دور میں وفد کے ساتھ نئی دہلی گئے تھے، وہاں ان کی ’پی آر‘ دیکھ کر بھٹو صاحب نے ’ایکسیلنٹ‘ کہا۔

اشفاق احمد زندگی میں آسانیاں بانٹنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ یہی چلن ساری زندگی سید فخر الدین بلے کا رہا۔ وہ اپنے رفقائے کار کی غلطیوں کو اپنے سر لے کر انہیں بچا لیا کرتے۔ برائی کا بدلہ بھلائی سے دینا ان کا شیوہ تھا۔ دوسروں کے کام آ کر دلی خوشی محسوس کرتے۔ اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لا کر بہت سے قلم کاروں کو پلاٹ بھی دلوائے، مگر اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے کوئی امید نہیں رکھی۔ اسی لیے وہ بڑے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتے۔ انکساری کے ساتھ خود داری بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ عزت سے پیش آتے اور اہلِ علم و ادب ہی نہیں بیوروکریٹس بھی انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ بلاشبہ اپنے حلقۂ یاراں میں مقبول اور ہر دل عزیز تھے۔

انہوں نے صدور، وزرائے اعظم، گورنروں، وزرائے اعلیٰ سمیت مقتدر شخصیات کے لیے ہزاروں تقریریں لکھیں، بیسیوں بروشرز، سووینئیرز، کتابیں اور کتابچے شایع کرائے۔ لاہور میں ادبی تنظیم قافلہ بنائی، جس کے تحت بڑی خوب صورت محفلیں سجایا کرتے تھے۔ مجھے بھی ان کے قافلے کی بہت سی محفلوں میں پڑاؤ ڈالنے کا اعزاز ملا۔ ان محفلوں کی رپورٹوں کو یکجا کر دیا جائے، تو لاہور کی ادبی تاریخ کے بہت سے اوراق ہم محفوظ کر سکتے ہیں۔

اسلام اور فنونِ لطیفہ کے حوالے سے بھی انہوں نے قرآن و احادیث کی روشنی میں بڑا تحقیقی کام کیا، اس کا مسودہ میری نظر سے گزر چکا ہے۔ واقعی قابلِ ستائش کارنامہ ہے۔ سَید فخرالدین بلّے کو اپنی زندگی میں جو میدان ملا، وہ اس سے باہر نکل کر بھی بڑی کام یابی کے ساتھ کھیلتے نظر آئے۔

یہ 1970ء کی دہائی کی بات ہے۔ وہ محکمہ تعلقات عامہ ملتان ڈویژن کے سربراہ کی حیثیت سے سرکاری دورے پر ساہیوال آئے تو وارث شاہ کی یادگار ملکہ ہانس کی خستہ حالی دیکھ کر سیدھے میرے دفتر پہنچ گئے۔ میں ان دنوں ساہیوال میں ڈپٹی کمشنر تھا۔ کہنے لگے آپ کے ہوتے ہوئے آپ کے ضلع میں یہ سب ہو رہا ہے، یقین نہیں آتا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو کہنے لگے بات بتانے کی نہیں، دکھانے کی ہے۔ وہ مجھے ملکہ ہانس لے آئے، اس کی خستہ حالی کی طرف توجہ دلائی۔ انہی کی تحریک پر ملکہ ہانس کی تزئینِ نو کا اہتمام کیا گیا۔ انہوں نے اس موقع پر ایک خوب صورت بروشر بھی شایع کیا تھا۔ ان کا اپنا شعر اس کے سرورق کی زینت تھا۔

لوگ ساری زندگی دولت سمیٹتے رہتے ہیں اور پھر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، لیکن سَید فخر الدین بلّے نے صرف عزت اور نیک نامی کمائی اور دنیا کو بہت کچھ دے گئے۔

(جاوید احمد قریشی کی تحریر سے اقتباسات)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں