منگل, اپریل 22, 2025
اشتہار

علّامہ اقبال اور وسطِ ایشیا کی وحدت کا خواب

اشتہار

حیرت انگیز

علامہ اقبال سے پہلے غزل اور نظم کے موضوعات میں ساقی، گل و بلبل، مے خانہ اور غزال کا ذکر ملتا تھا لیکن اقبال نے اپنی فکر و فلسفہ اور تخلیقی صلاحیتوں کو قوم کی بیداری اور اس میں ملّت کا تصوّر اجاگر کرنے کے استعمال کیا انھوں‌ نے مرد مومن، شاہین اور خودی کا درس دیتے ہوئے اپنی نظموں کو متنوع موضوعات سے سجایا۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے مسلم امہ خصوصاً نوجوانوں میں انقلابی روح پھونک دی۔

بابائے اردو مولوی عبد الحق ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’اقبال برصغیر ہی کے نہیں، بنی نوع انسان کی لازوال تہذیب کے ایک برگزیدہ مفکر اور شاعر کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے۔‘‘

شاعرِ مشرق اور مصوّرِ پاکستان علامہ اقبال 21 اپریل 1938 کو وفات پاگئے تھے۔ آج اقبال کے یومِ وفات کی مناسبت سے ہم ‘اقبال کے سیاسی تصورات’ سے ماخوذ یہ پارے پیش کر رہے ہیں جس کے مرتب کار پروفیسر فتح محمد ملک ہیں۔

نامور صحافی اور ماہر نشریات آصف جیلانی نے ’’وسطِ ایشیا— نئی آزادی، نئے چیلنج‘‘ کے عنوان سے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ: ’’تاجکستان کے دارالحکومت دو شنبہ کے چوکِ آزادی میں پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے جب میں نے جوش و عقیدت سے سرشار مظاہرین کو علامہ اقبال کا ترانہ ’’از خواب گراں خیز‘‘ نہایت والہانہ انداز سے پڑھتے دیکھا تو مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ میں لاہور سے سیکڑوں میل دور، راوی، چناب اور جہلم کے سر سبز کناروں کے پار، درۂ خیبر کی سنگلاخ چٹانوں سے پرے اور پامیر کے آسمان بوس پہاڑوں کے مغرب میں دریائے دو شنبہ کے کنارے اس شہر میں اقبال کی صدا سن رہا ہوں۔‘‘

یہ عبارت پڑھتے وقت مجھے علامہ اقبال ہی کا درج ذیل شعر بے اختیار یاد آیا:
اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمرقند

اقبال کے عہد سے ہمارے عہد تک یہ ’’ولولہ‘‘ تازہ کا تازہ ہی رہا۔ چنانچہ: ’’اقبال کی یہ نظم، تاجکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ’’رستا خیز‘‘ نے اپنے ترانے کے طور پر یوں اپنائی ہے کہ جیسے یہ ان کے اپنے قومی شاعر کی نظم ہو— مجھے ایسا لگا کہ راوی کے کنارے، دریائے دو شنبہ سے آن ملے ہوں— برسوں سے بچھڑی ہوئی دو بہنوں کی طرح—‘‘

آصف جیلانی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید بتایا کہ: ’’دو سال پہلے رستا خیز پارٹی نے اس ترانے کی گونج میں تاجکستان میں سوویت راج اور کمیونسٹ حکومت کو للکارا تھا- 50 لاکھ نفوس کی اس چھوٹی سی جمہوریہ میں یہ عمل ایک نئے انقلاب سے کم نہ تھا جس میں اسلامی جماعت ’’نہفت اسلامی‘‘ شامل تھی۔ 90ء سے قبل یہ دونوں جماعتیں خفیہ طور پر اپنے اپنے انداز سے سرگرم عمل تھیں اور بلاشبہ جمہوریت و آزادی کی نقیب ثابت ہوئیں۔‘‘

روسی اشتراکیت نے وادیٔ فرغانہ کو جو کہ وسطِ ایشیا کا قلب کہلاتی تھیں، تین مختلف ریاستوں— تاجکستان، ازبکستان اور کرغیزستان— میں تقسیم کر کے یہاں آباد مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ غیر مذہب اور کلچر کے پیروکار روسیوں کو بھی یہاں لا آباد کیا تھا۔ آصف جیلانی کے ان مشاہدات سے میں نے یہ جانا کہ اقبال کا پیغام آج وسطِ ایشیا کے مسلمانوں کی تہذیبی وحدت کا سر چشمہ بن چکا ہے:

وسطِ ایشیا کے نام اقبال کے پیغام (از ہند و سمرقند و عراق و ہمداں خیز) کے یوں بار آور ہونے کی روداد پڑھتے وقت مجھے دنیائے اسلام کے زوال اور محکومی پر اقبال کی دلسوزی اور درد مندی کے متعدد واقعات یاد آئے۔ ان میں سے فقط دو واقعات پیشِ خدمت ہیں۔ اوّل یہ کہ ترکی میں پاکستان کے پہلے سفیر میاں بشیر احمد نے لکھا ہے کہ: ’’ایک دفعہ اقبال کی شاعری، پیغام اور اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق وغیرہ کا ذکر آگیا تو انگریزی میں کہا:

“There is a Crust at the heart of Central Asia. I want to break through it”.

ترجمہ:‌ ’’وسطِ ایشیا کے قلب پر ایک پپڑی جمی ہوئی ہے میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتا ہوں۔‘‘

دوم یہ کہ سید نظیر نیازی نے اپنی بیاضِ یادداشت میں لکھا ہے کہ وفات سے فقط چند ہفتے پیشتر، ایک دوپہر علامہ اقبال نے خاموش لیٹے لیٹے اچانک ’’حقے کا کش لگایا اور کہنے لگے: وسط ایشیا میں 4 کروڑ ترک آباد ہیں۔ ان کا اتحاد کیوں ممکن نہیں؟ میں نے عرض کیا: ’’یہ تحریک تو پرانی ہے، لیکن روس کی وہ کیفیت نہیں جو کبھی تھی، یعنی اشتراکی انقلاب سے پہلے۔ روس اب تک بہت بڑی طاقت ہے۔ اس کی موجودگی میں یہ اتحاد کیسے ممکن ہو؟ اس کے لیے بڑی طاقت اور بڑے تدبر کی ضرورت ہے۔ یوں بھی وسط ایشیا میں شاید اب اس قسم کی تحریک کا وجود نہیں۔ تھا بھی تو 1922ء میں ختم ہوگیا۔ عثمانی ترک اپنی الگ تھلگ قومیت کا اعلان کرچکے ہیں۔ ان کا اور تیموری ترکوں کا رابطہ مدت ہوئی ٹوٹ چکا ہے۔ یوں بھی روس کی گرفت نے مدت ہوئی اس کا خاتمہ کر دیا ہے۔ حضرت علامہ نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا، البتہ ایک بات پھر کروٹ بدلتے ہوئے فرمایا: ’’وسطِ ایشیا میں 4 کروڑ ترک آباد ہیں۔ ترک کیوں متحد نہیں ہوتے؟‘‘

کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ
نہ تھے ترکانِ عثمانی سے کم ترکانِ تیموری

وسطِ ایشیا کے مسلمانوں کی بیداری، آزادی اور اتحاد کی یہ آرزو اقبال کی عزیز ترین تمناؤں میں سے ایک ہے۔ ہر چند وہ اس بات پہ خوش تھے کہ عثمانی ترکوں نے اپنا مقدر اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے تاہم یہ عمل ان کے لیے ہمیشہ سوہانِ روح بنا رہا کہ تیموری تُرک روسی اشتراکی آمریت کے پنجۂ استبداد میں پڑے تڑپ رہے ہیں۔ تیموری ترکوں کی آزادی، خود مختاری اور عثمانی ترکوں کے ساتھ ان کا اتحاد و فکر و عمل ایک ایسا خواب تھا جس میں اقبال سوتے جاگتے محو رہا کرتے تھے۔

افغانستان کے سفر کے دوران شہنشاہ بابر کے مزار پر وسطِ ایشیا کی حیاتِ نو کا یہی خواب نغمے میں ڈھل جاتا ہے۔ اقبال بابر کے مقدر پر رشک کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی سر زمین میں آسودۂ خاک ہے جو طِلسم فرنگ سے آزاد ہے۔

اقبال مسلمانوں کے ماضی کا خیال کرتے ہیں تو انہیں وسط ایشیا کا شان دار ماضی یاد آتا ہے۔ اقبال اسی کے عکس پر وسطِ ایشیا کا مستقبل تعمیر کرنے کے تمنائی ہیں۔ اقبال عہدِ حاضر کے یگانۂ روزگار شاعر، فلسفی اور دانشور تھے۔ ان کے فنی اور فکری کمالات کو تین دائرہ ہائے عمل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان کی ذات بیک وقت برصغیر، دنیائے اسلام اور دنیائے انسانیت کو مادی اور روحانی ترقی و تکمیل کی جانب گامزن دیکھنے کی تمنائی رہی۔ دنیائے اسلام کا وہ حصہ جسے وسطِ ایشیا کہتے ہیں ابھی تک بڑی حد تک پردۂ اخفا میں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وسطِ ایشیا پر زارِ روس اور بعد ازاں سوویت آمریت کا تسلط قائم رہا اور کئی دہائیوں تک وسط ایشیا اور باقی ماندہ ایشیا کے درمیان لوہے کی دیوار (Iron Curtain) حائل رہی۔ اقبال زندگی بھر لوہے کی اس دیوار کو گرانے اور یوں وسط ایشیا کو ایشیائی بیداری کا نقیب بنانے کے خواب دیکھتے رہے۔ یہ دیوار اقبال کی وفات کے پون صدی بعد گری اور یوں وسطِ ایشیا کی محکوم ریاستیں سیاسی آزادی کے پہلے مرحلے میں داخل ہو سکیں۔ چنانچہ آج وسطِ ایشیا ایک بار پھر اقبال کی آرزوؤں کا وسطِ ایشیا بننے میں کوشاں ہے۔

علامہ اقبال اپنے ابتدائی تشکیلی اور تعمیری دور سے لے کر اپنی فکری و فنی تکمیل کے زمانے تک وسطِ ایشیا کی ادبی و روحانی میراث سے کسبِ فیض کیا تھا۔ چنانچہ علامہ اقبال پر وسطِ ایشیا کی صوفیانہ اور شعری ہر دو روایات کا بڑا اثر تھا۔ شاہِ ہمدان ؒ سے لے کر شیخ نور الدین ولی رشی تک پہنچنے والی صوفیانہ روایت نے اقبال کے آباؤ اجداد سے لے کر خود اقبال کے لڑکپن تک اقبال کو مسحور رکھا۔ ہماری ادبی و شعری روایت بڑی حد تک اسی صوفیانہ اور شاعری ادبی روایت کی پروردہ چلی آرہی ہے۔ اقبال پہلے اس روایت سے بیش از بیش اکتسابِ فیض کرتے ہیں اور پھر اسی روایت کو نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کرتے ہیں۔ اپنی شاعری اور فکر کے ذریعے اقبال وسط ایشیا کی محکومی اور وسطِ ایشیا میں روسی استبداد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ وہ وسطِ ایشیا کو پھر سے بیدار ہونے اور تعمیر جہاں میں اپنا کردار ادا کرنے کا فریضہ یاد دلاتے رہتے ہیں۔

یوں مَیں اپنے اس ماضی کی یاد میں کھو گیا جو آج ہمارا مستقبل بننے کو بے چین ہے۔ گردشِ ایام پیچھے کی طرف دوڑنے لگی اور مَیں اقبال کے عہد سے ذرا پیچھے اسلامی ہندوستان کے تہذیبی ماحول میں جا پہنچا جہاں متاخرین شعرائے فارسی، سبکِ ہندی کا منفرد اسلوب تراشنے میں مصروف ہیں، پھر یہ اسلوب وادیٔ سندھ سے ماوراء النہر تک، بنگال سے بوسنیا تک اور خاک کاشغر تک سے نیل کے ساحل تک رواج پاتا اور عہد کا مقبول ترین اسلوب بنتا نظر آتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب فارسی زبان دنیائے عجم کی تہذیبی و فکری وحدت اور مسلمانوں کے عروج و ارتقاء کی مقبولِ عام ترجمان تھی۔ پھر وہ وقت آپہنچا جب برطانوی استعمار بلادِ اسلامیۂ ہند میں اپنی جنسِ تجارت اتارتا ہے۔ کم و بیش اسی زمانے میں زارِ روس وسطِ ایشیا میں انتشار کے بیج بونا شروع کرتا ہے۔ چنانچہ اسلامی ہند رفتہ رفتہ برطانوی ہند بن جاتا ہے اور وسطِ ایشیا، سوویت وسطِ ایشیا کے نام سے موسوم ہو جاتا ہے۔ برطانوی اور روسی ہر دو استعمار دنیائے عجم کی وحدت کو پارہ پارہ کر دینے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر فارسی زبان کو جو کہ وسیلۂ اتحاد ہے، دفتر و دربار اور کوچہ و بازار سے بے دخل کرنے کے لیے ماہرینِ لسانیات کی خدمات مستعار لیتے ہیں۔ پہلے اردو اور پھر انگریزی کا چلن عام ہو جاتا ہے اور یوں دنیائے اسلام کی لسانی وحدت انتشار کی نذر ہو جاتی ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا ایک کارنامۂ خاص یہ ہے کہ وہ اپنے وقت میں اس وحدت کی بازیافت کی خاطر فارسی شاعری کا آغاز کرتے ہیں اور منجمد خون کی اس پپڑی کو ریزہ ریزہ کر دینے میں مصروف ہو جاتے ہیں جس نے ساری کی ساری دنیائے عجم کے رگ و ریشہ میں زندہ خون کی گردش کو بند کر رکھا تھا۔

ہر چند آج وسطِ ایشیا کے دل پرجمی ہوئی پپڑی (crust) ٹوٹ پھوٹ چکی ہے تاہم اقبال کے چہرے پر آج بھی تشویش کی وہ لہر موجود ہے جو بابر کے مزار پر کھڑے اقبال کے چہرے سے عیاں تھی۔ اقبال آج بھی متفکر ہیں کہ بے شک افرنگ تو چلا گیا ہے مگر یہ سر زمینیں ابھی تک طلسم فرنگ سے آزاد نہیں ہو پائیں۔ ابھی تک وہی پرانے موروثی حکمران بیشتر مسلمان ممالک پر حکمران ہیں جو فرنگی اور روسی استعمار نے اپنے عکس پر پیدا کیے تھے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں