بدھ, اپریل 23, 2025
اشتہار

اشرف صبوحی: اردو ادب کا گوہرِ نایاب

اشتہار

حیرت انگیز

متحدہ ہندوستان کی دلّی کی تہذیب و ثقافت کو سمجھنے کے لیے جن معتبر اور مستند کتابوں کا نام لیا جائے گا ان میں اشرف صبوحی کی تصانیف سرفہرست ہوں گی۔ اشرف صبوحی کا نام دلّی کے چند بڑے وقائع نگار اور تذکرہ نویسوں میں کیا جاسکتا ہے۔ آج اردو کے اس صاحبِ اسلوب ادیب کا یومِ وفات ہے۔

اشرف صبوحی اردو کے ممتاز ادیب اور اوّلین ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ تقسیم ہند سے قبل ہی اشرف صبوحی اپنا قلمی سفر شروع کرچکے تھے۔ انھوں نے ڈرامے، ریڈیو فیچر، بچوں کی کہانیاں، تنقیدی مضامین، دلّی کی سماجی اور تہذیبی زندگی پر تحریروں کے علاوہ افسانے اور شخصی خاکے لکھے اور تراجم بھی کیے۔ اشرف صبوحی نے بہت لکھا اور خوب لکھا۔ ان کا انداز دلّی کی خاص زبان کے ساتھ خوب رواں اور دل چسپ ہے جو قارئین کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ وقائع نگاری اور تذکرہ نویسی میں انھیں کمال حاصل تھا۔ دلّی سے متعلق مضامین میں انھوں نے گویا ایک تہذیب، معاشرت اور ثقافت کو تصویر کردیا ہے۔ ان مضامین میں مختلف مشہور شخصیات اور عام لوگوں کے تذکرے ہی نہیں، تہواروں، میلوں ٹھیلوں، پکوان، لباس اور استعمال کی مختلف اشیا تک کے بارے میں پڑھنے کو ملتا ہے۔

اشرف صبوحی کا اصل نام سیّد ولی اشرف تھا۔ وہ 11 مئی 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ ان کے والد علی اشرف محکمۂ ریلوے کے شعبۂ انجینئرنگ میں ملازم تھے۔ وہ ایک عالم دین بھی تھے۔ اشرف صبوحی کی ابتدائی تعلیم والدہ کی نگرانی میں گھر میں ہوئی۔ بعد ازاں انگلو عربک ہائی اسکول سے 1922ء میں سیکنڈ کلاس میں میٹرک پاس کیا۔ صبوحی صاحب کو فارسی سے شروع ہی سے لگاؤ تھا۔ میٹرک کے بعد انھوں نے پرائیویٹ طور پر ادیب فاضل، منشی فاضل، ایف اے اور بی اے کے امتحانات جامعہ پنجاب سے پاس کیے۔ تقسیم ہند کے بعد پہلے لاہور میں مقیم ہوئے۔ یہاں پر بھی محکمۂ ڈاک میں کام کیا اور سبک دوشی کے بعد کراچی منتقل ہو گئے تھے۔

اشرف صبوحی کی تصانیف میں دلّی کی چند عجیب ہستیاں، غبارِ کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب سے بہت سے تراجم شامل ہیں۔ مغل دور کا دلّی ہمیشہ سے تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے۔ اس تاریخی شہر کی تمدنی علامتوں کے خاکے اشرف صبوحی نے اپنے مخصوص دہلوی اسلوب میں رقم کیے ہیں۔ دلی کی چند عجیب ہستیاں ان کے خاکوں کا پہلا مجموعہ تھا جو 1943ء میں منظر عام پر آیا۔ دہلی کی تہذیب و معاشرت کے متعلق بہت سے اہلِ قلم نے لکھا ہے تاہم اشرف صبوحی کا انداز سب سے جداگانہ ہے۔ اشرف صبوحی نے کرداروں کے ایسے مرقعے پیش کیے ہیں جس سے دہلی کی مخصوص معاشرتی زندگی، ان کی سادہ لوحی اور ان کا رکھ رکھاؤ پوری طرح سے واضح ہو جاتا ہے۔ ان کی دیگر کتابیں اور تحریریں بھی اسی وصف اور اسلوب کے باعث اہمیت کی حامل ہیں۔ اشرف صبوحی نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا اور ان کے لیے کہانیاں لکھی ہیں۔

اشرف صبوحی کے ایک مضمون گنجے نہاری والے کی دکان سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

"جب تک ہماری یہ ٹولی زندہ سلامت رہی اور میاں گنجے صاحب نیچی باڑ کی مسلی مسلائی لیس دار ٹوپی سے اپنا گنج ڈھانکے چھینٹ کی روئی دار کمری کی آستینوں کے چاک الٹے، رفیدہ سے چہرے پر لہسنیا ڈاڑھی لگائے، آلتی پالتی مارے، چمچ لیے دیگ کےسامنے گدّی پر دکھائی دیتے رہے، نہ ہمارا یہ معمول ٹوٹا اور نہ نہاری کی چاٹ چھوٹی۔ دو چار مرتبہ کی تو کہتا نہیں ورنہ عموماً ہم اتنے سویرے پہنچ جاتے تھے کہ گاہک تو گاہک دکان بھی پوری طرح نہیں جمنے پاتی تھی۔ کئی دفعہ تو تنور ہمارے پہنچے پر گرم ہونا شروع ہوا اور دیگ میں پہلا چمچ ہمارے لیے پڑا۔ دکان کے سارے آدمی ہمیں جان گئے تھے اور میاں گنجے کو بھی ہم سے ایک خاص دل چسپی ہوگئی تھی۔

تین چار مواقع پر اس نے خصوصیت کے ساتھ ہمارے باہر والے احباب کی دعوت بھی کی اور یہ تو اکثر ہوتا تھا کہ جب علی گڑھ یا حیدرآباد کے کوئی صاحب ہمارے ساتھ ہوتے وہ معمول سے زیادہ خاطر کرتا۔ فرمایش کے علاوہ نلی کا گودا، بھیجا اور اچھی اچھی بوٹیاں بھیجتا رہتا اور باوجود اصرار کے کبھی ان چیزوں کی قیمت نہ لیتا۔

اب یہ اپنے شہر والوں کی پاس داری کہاں؟ ہماری وضع میں کیا سلوٹیں آئیں کہ زندگی کی شرافت ہی میں جھول پڑگئے۔”

اردو ادب کو کئی یادگار تصانیف دینے والے اشرف صبوحی 22 اپریل 1990ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔ انھیں گلشنِ اقبال کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں