پیر, جون 9, 2025
اشتہار

بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب جسمانی ریمانڈ کا سوال پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جسمانی ریمانڈ کیلیے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹاتے ہوئے ریماکس دیے کہ صوبائی حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے۔

جسمانی ریمانڈ کی اپیلوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکلا دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کا حق رکھتے ہیں، ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب جسمانی ریمانڈ کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عمران خان کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک اور وائس میچنگ ٹیسٹ کروانے ہیں۔ اس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کروانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان سے ملاقات نہ کروانے پر دائر توہین عدالت کی درخواست خارج

بینچ میں شامل جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریماکس دیے کہ کسی قتل یا زنا کے کیس میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کروائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسی ہی تیزی دکھائے گی۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ یہ کس نوعیت کا کیس ہے؟ آپ جسمانی ریمانڈ مانگ رہے ہیں؟ وکیل پنجاب حکومت نے بتایا کہ ہم نے ملزم کے 3 ٹیسٹ کروانے ہیں۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ڈیڑھ سال بعد تو جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا۔

اس پر وکیل نے کہا کہ ملزم ٹیسٹ کروانے کیلیے تعاون نہیں کر رہا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ ملزم حراست میں ہے، زیر حراست شخص کیسے تعاون نہیں کر سکتا؟ ٹرائل کورٹ نے جسمانی ریمانڈ دیا جبکہ ہائیکورٹ نے تفصیلی وجوہات کے ساتھ فیصلہ مسترد کیا، اب درخواست غیر مؤثر ہو چکی ہے جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ آپ کے پاس ملزم کے خلاف شواہد کی یو ایس بی موجود ہے، جا کر اس کا فرانزک کروائیں۔ وکیل پنجاب حکومت نے بتایا کہ ملزم کی جیل سے حوالگی نہیں چاہتے بس چاہتے ہیں ملزم تعاون کرے۔

سپریم کوٹ میں موجود عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے مؤقف اختیار کیا کہ پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ سے 30 دن کا ریمانڈ لیا، ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا، ملزم کو ٹرائل کورٹ میں پیش کیے بغیر جسمانی ریمانڈ لیا گیا، ریمانڈ کیلیے میرے مؤکل کو ویڈیو لنک پر عدالت پیش کیا گیا تھا۔

وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ ایف آئی آر کے بعد 14 ماہ تک پراسیکیوشن نے گرفتاری ڈالی اور نہ ہی ٹیسٹ کروائے، جب میرا مؤکل سائفر اور عدت کیس میں بری ہوا تو گرفتاری ڈال دی گئی، پراسیکیوشن لاہور ہائیکورٹ کو پولی گرافک ٹیسٹ کیلیے مطمئن نہیں کر سکی۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ہم چھوٹے صوبوں کے لوگ دل کے بڑے صاف ہوتے ہیں، 3 رکنی بینچ نے آج سے چند روز قبل ایک ایسا کیس سنا جس سے دل میں درد ہوتا ہے، ایک شخص 8 سال تک قتل کے جرم میں جیل کے ڈیتھ سیل میں رہا، 8 سال بعد کیس کی سماعت مقرر ہوئی اور ہم نے باعزت بری کیا۔

انہوں نے پنجاب حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ کبھی ڈیٹھ سیل میں رہے ہیں؟

جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریماکس دیے کہ توقع کرتے ہیں آپ عام آدمی کے مقدمے میں بھی پھرتی دکھائیں گے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں