سپریم کورٹ نے بیوہ عورتوں کے حقوق سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لکھا گیا فیصلہ 5 صفحات پر مشتمل ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ بیوائیں تمام شہریوں کی طرح روزگار، وقار، برابری، خودمختاری کا حق رکھتی ہیں۔
عدالت نے لکھا کہ سوال ہے کیا بیوہ کو دی گئی امدادی ملازمت اسکے دوبارہ نکاح کے بعد ختم کی جا سکتی ہے؟ اس عدالت میں اس سے ملتا جلتا معاملہ زاہدہ پروین کیس میں زیر بحث آیا تھا جس میں عدالت نے شادی شدہ بیٹیوں کیخلاف اقدامات کوغیر آئینی قرار دیا تھا۔
تحریری فیصلے کے مطابق آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں، بیوہ کو اس کی دوبارہ شادی کی بنیادپر ملازمت سے نکالنا صریحاً صنفی امتیاز ہے بیوہ کی شناخت اس کے شوہر سے نہیں جڑی ہونی چاہیے اور مالی خودمختاری عورتوں کی آئینی شناخت کا بنیادی جزو ہے۔
’جس مرد کی اہلیہ کا انتقال ہوا ہو تو دوسری شادی پر آفس میمورینڈم لاگو نہیں ہوتا، بیوہ عورت کو دوسری شادی پر نوکری سے برخاست کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے ایسی پالیسیز عورتوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کرتی ہیں ایسے اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کیخلاف ہیں‘
فیصلے کے مطابق بیوہ کو کسی عورت کی محرومی یا کم حیثیتی کی علامت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے بیوہ بھی دوسرے شہریوں کی طرح برابر کی عزت وحقوق کی حقدار ہے، جنرل پوسٹ آفس فیصلے میں وزیر اعظم کا امدادی پیکیج غیرآئینی قرار دیا گیا سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق موجودہ مقدمے پر لاگو نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مستقبل کیلئے تھا سابقہ تقرریاں متاثر نہیں ہوتیں، عدالت کو لاہور ہائیکورٹ فیصلے میں مداخلت کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آئی لہذا عدالت چیف کمشنر، ریجنل ٹیکس آفیسر بہاولپور کی اپیل خارج کرتی ہے۔