ایران کے سب سے بڑے بندر عباس کے شہید رجائی پورٹ پر گزشتہ روز ہونے والے خوفناک دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 40 تک پہنچ گئی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایران پورٹ دھماکے میں 1200 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ مزید ہلاکتوں کا بھی خدشہ ہے۔
دھماکا اتنی شدید نوعیت کا تھا کہ اس کے اثرات کئی کلومیٹر تک محسوس ہوئے اور اس سے بندرگاہ کے کنٹینروں کے دھاتی حصے اکھڑ گئے جبکہ اندر موجود سامان کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق پورٹ کے متاثرہ علاقے میں مختلف مقامات پر تاحال آگ بھڑک رہی ہے اور ہیلی کاپٹروں اور فائر فائٹرز کی ٹیمیں آگ کو بجھانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دھماکے کی اصل وجہ کا تعین ابھی تک نہیں ہوسکا ہے، تاہم حکومتی ترجمان نے شواہد کی بنا پر کہا ہے کہ دھماکہ کی ممکنہ وجہ کیمیکلز کی ذخیرہ اندوزی ہوسکتی ہے لیکن اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ آیا یہ واقعہ ایران کے میزائل پروگرام سے متعلق تھا یا نہیں۔
ایرانی وزارت دفاع نے ان رپورٹس کو مسترد کیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ دھماکہ میزائل کے استعمال کے لیے ذخیرہ کیے گئے ٹھوس ایندھن کی غلط ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہوا تھا۔ وزارت دفاع کے ترجمان نے اس افواہ کو "دشمن کی پروپیگنڈہ مہم” قرار دیا۔
ایرانی حکام کے مطابق دھماکے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے دھماکے کی مکمل چھان بین کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ ایران میں حالیہ برسوں میں کئی بڑے حادثات رونما ہو چکے ہیں جن میں توانائی اور صنعتی شعبے میں آتشزدگی اور دھماکے شامل ہیں۔
مزید پڑھیں : ایران میں بندر عباس کے شاہد راجئی پورٹ پر زوردار دھماکا
ان میں ایک بڑا گیس دھماکہ اور بندر عباس میں 2023 میں ایک ورکنگ حادثہ شامل ہے جس میں ایک کارکن کی ہلاکت ہوئی تھی۔ ایران نے کچھ دیگر حادثات کا الزام اسرائیل پر بھی لگایا ہے، جو ماضی میں ایرانی جوہری پروگرام پر حملے کرتا رہا ہے۔