ہندوستان میں دہلوی معاشرت کی تہذیب و ثقافت، زبان و ادب اور سیاسی و سماجی سرگرمیاں ہمیشہ اہمیت کی حامل رہی ہیں اور آج بھی تاریخ اور ادب پر اس کا فسوں برقرار ہے۔ قیصری بیگم اُسی دہلی کی ایک ایسی ادیب تھیں جن کی تصانیف ہمیں اس دور کی جھلک دکھاتی ہیں جب معاشرہ اپنی اقدار اور روایات کو عزیز رکھتا تھا۔
وہ ڈپٹی نذیر احمد کی نواسی تھیں جن کو اردو زبان کا پہلا ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ قیصری بیگم کی زبان بھی ویسی ہی بامحاورہ ہے جس کے لیے دہلی کے ادیب مشہور رہے ہیں۔ وہ 1888 میں پیدا ہوئی تھیں اور 1977 میں دہلی ہی میں انتقال کیا۔ یہاں ہم ان کی خودنوشت سوانح بعنوان کتابِ زندگی سے ایک پارہ نقل کر رہے ہیں جو عورتوں کے ڈولیوں میں سوار ہو کر نکلنے کے بارے میں ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
باہر کا کوئی لڑکا گھر میں نہ آسکتا تھا۔ ڈولیوں میں آنے جانے کا رواج تھا۔ جانا بھی کہاں، وہی محلّے کے محلّے میں۔ ایک گھر سے دوسرے گھر۔ ذرا سی گلی بیچ، ڈولی آکر ڈیوڑھی میں لگ جاتی۔ کہار باہر ہو جاتے۔ دروازہ بند ہوا، بیوی سوار ہوئیں ۔ ڈولی کے پردے لال قند کے، جن پر سفید پھول پتی کا کام بنا ہوا، جہیز میں دیے جاتے تھے۔ ان پر احتیاطاً ایک اور سفید چادر لپیٹ دی کہ پردے کو کوئی پہچان نہ لے۔ دو کہار ڈولی اٹھاتے اور راستے میں ایک کہار دوسرے کو آواز دیتا، دیکھ کر بھیا، سنبھل کر، موری ہے، نالا ہے، گڑھا ہے، دبے پاؤں چلنا، ہولے سے، ہلکے سے۔ یہ سب باتیں محض ہنکاروں میں ادا ہوجاتی تھیں۔
جب ڈولی پہنچتی…. کہار آواز دیتے ’’بوا جی ، سواری اتر والو۔‘‘ اور خود ڈیوڑھی کا دروازہ بند کر کے باہر چلے جاتے۔ آواز پر اندر سے ماما، بوبو جی آجاتی اور مہمان کو اتروا کر اندر لے جاتی۔
کرایہ کیا؟ ایک پیسہ، دو پیسے۔ محلے سے باہر ذرا دور گئے ایک آنہ ڈیڑھ آنہ۔ میری ننھیال اور ددھیال کا خاصا فاصلہ تھا۔ دو آنے جاتے تھے جس کے آٹھ پیسے ہوتے ہیں۔ کہار اپنی ڈولیاں لیے پھاٹک پر ہی رہتے اور اشارے پر آجاتے۔
بوا جی کے سوا بات نہ تھی۔ نرم لہجہ، نرم زبان، نہ لڑائی نہ تُو تُو مَیں میں۔ اگر کسی دن کہاروں نے کرایہ زیادہ مانگا، دوسرے محلے سے سواری آئی، تو ماما کہتی ’’اوئی بھیا، تم نئے ہو؟ سدا سے جو کرایہ دیا جاتا ہے وہی تو آیا ہے۔‘‘کہار کہتے ’’اچھا بوا جی، جو من میں آئے سو دے دو۔ تم سے تکرار کرنا تھوڑی ہے۔‘‘ جس کے ہاں مہمان جاتے وہی کرایہ بھی دیتا اور کرایہ نہ دینا بدشگونی سمجھی جاتی۔
ماما اندر جا کر کہتی’’کہار بھی موئے دیوانے ہوئے ہیں، سدا سے دو ہی پیسے تو دیے جاتے تھے، اب تین مانگ رہے ہیں۔ نگوڑوں کی عقل جاتی رہی ہے۔ حجت کرنے لگے ہیں۔ چودھر ی صاحب سے کہوں گی ان کو ذرا سمجھا بجھا دیں۔ زنانی سواری پر تکرار نہ کیا کریں۔‘‘ میزبان بیوی کہتیں ’’اے ہے بوا تو ایک پیسہ دے دیا ہوتا، نگوڑے خوش ہو جاتے، وہ بھی تو آس لگائے رہتے ہیں۔‘‘