منگل, اپریل 29, 2025
اشتہار

یاد نگاری: تھیٹر اور ڈرامہ نویسی کو بامِ‌ عروج پر پہنچانے والے آغا حشر

اشتہار

حیرت انگیز

ہندوستان میں‌ تھیٹر کی ابتدا اور اردو ڈرامہ کی مقبولیت جب بھی موضوعِ بحث بنے گی، آغا حشر کاشمیری کا نام بھی ضرور لیا جائے گا۔ وہ اپنے زمانے کے مشہور ڈرامہ نویس اور بہترین فن کار تھے جنھوں نے طبع زاد کے ساتھ بدیسی ڈراموں کو بھی اردو کے قالب میں ڈھال کر تھیٹر پر پیش کیا۔

آغا حشر کاشمیری کو ہندوستانی شیکسپئر بھی کہا جاتا ہے۔ اس دور میں تھیٹر ہر خاص و عام کی تفریح کا بڑا ذریعہ تھا جس کے لیے آغا حشر کاشمیری نے طبع زاد کھیلوں کے ساتھ کئی غیر ملکی ادیبوں کے ڈراموں کے تراجم کیے اور انھیں ڈرامہ کے قالب میں ڈھالا۔ ان کی کہانیاں عوام میں بے حد مقبول ہوئیں۔ آغا صاحب کے تحریر کردہ مکالمے نہایت جان دار ہوتے تھے۔ آغا حشر تقسیم ہند سے کئی سال پہلے 28 اپریل 1935ء کو دارِ بقا کو کوچ کرگئے تھے۔ انھیں لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

امرتسر میں آغا حشر کی پیدائش یکم اپریل 1879 کو ہوئی۔ آغا حشر کا اصل نام محمد شاہ تھا۔ نوعمری میں انھیں تھیٹر دیکھنے اور ڈرامے پڑھنے کا شوق ہو گیا اور ایک وقت آیا جب وہ خود بھی لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ ان کی ابتدائی کہانیوں سے متاثر ہوکر بمبئی کے الفریڈ تھیٹریکل کمپنی نے بطور ڈرامہ نویس ان کی خدمات مستعار لے لیں۔ آغا حشر نے اپنے قلم کو اس کمپنی کے لیے متحرک رکھا اور پھر 1910 میں انھوں نے سرمایہ لگا کر اپنی تھیٹریکل کمپنی قائم کرلی۔ وہ کہانی اور مکالمہ نویسی میں‌ مہارت پیدا کرچکے تھے اور اب اپنے ڈراموں کے ہدایت کار بھی بن گئے۔ اس وقت تک ان کی شہرت اور مقبولیت ہندوستان بھر میں پھیل چکی تھی اور ان کا شمار بڑے ڈرامہ نگاروں میں کیا جانے لگا تھا۔

آغا صاحب کی طبع زاد کہانیوں اور ڈراموں کو شائقین نے اتنا سراہا کہ انھیں ایک سے زائد مرتبہ تھیٹر پر پیش کیا گیا۔ ہر بار بڑی تعداد میں‌ لوگوں نے تھیٹر دیکھا اور آغا حشر کی تعریف کی۔ وہ ایسا دور تھا جب تھیٹر پر معاشرتی مسائل اور سماجی رویوں کی تمثیل نگاری کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ آغا حشر نے ’یہودی کی لڑکی‘ اور ’رستم و سہراب‘ جیسے یادگار ڈرامے لکھے جنھیں‌ شائقین نے بے حد پسند کیا جب کہ ناقدین بھی داد دیے بغیر نہیں‌ رہ سکے اور ان ڈراموں کو اردو ادب میں‌ خاص اہمیت حاصل ہوئی جس پر آج بھی مقالہ جات لکھے جاتے ہیں اور آغا حشر کے فن کو سراہا جاتا ہے۔

ڈرامہ نویسی کے ساتھ آغا حشر نے بطور شاعر بھی شہرت پائی۔ ان کی شاعری کو اپنے وقت کے مشہور شعرا نے سراہا ہے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

ان کے ایک ہم عصر چراغ حسن حسرت نے اپنے شخصی خاکوں کی کتاب مردمِ‌ دیدہ میں‌ لکھا ہے: یہ جس زمانے کا ذکر ہے، ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا۔ جو کچھ تھا تھیٹر ہی تھیٹر تھا اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا۔ یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراما آرٹسٹ موجود تھے۔ احسن، بیتاب، طالب،مائل، سب کے سب لنکا کے باون گزے تھے لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے۔

وہ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے۔ ادنیٰ قسم کے بازاری ناولوں، اخباروں او رسالوں سے لے کر فلسفہ اور مابعدالطبیعات کی اعلیٰ تصانیف تک سب پر ان کی نظر تھی۔ بازار میں چلتے چلتے کتابوں کی دکان نظر آگئی۔ کھڑے ہوگئے۔ اچھی اچھی کتابیں چھانٹ کے بغل میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق دکھائی دیا تو اسے اٹھا لیا اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھ ڈالا۔ نوکر بازار سے سودا سلف لے کر آیا ہے، بنیے نے اخباروں اور کتابوں کے اوراق میں پڑیاں باندھ کے دی ہیں۔ یکایک آغا صاحب کی نظر پڑگئی۔ نوکر سے کہہ رہے ہیں کہ پڑیا خالی کر کے لاؤ۔ یہ بڑے کام کی چیز معلوم ہوتی ہے مجھے اس پر شبلی کا نام لکھا نظر آیا ہے۔ ان کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ ایک مرتبہ کوئی کتاب پڑھ لیتے تھے تو اسے دوسری مرتبہ دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ یہ اسی مطالعہ کی برکت تھی کہ ان کی معلومات پر لوگوں کو حیرت ہوتی تھی۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں