منگل, اپریل 29, 2025
اشتہار

ایٹمی پروگرام کا آغاز اور پاکستان کے جوہری دھماکے

اشتہار

حیرت انگیز

پہلگام حملے کے بعد بھارت نے اپنی سیکیورٹی اور انٹیلیجینس کی ناکامی کو چھپانے کے لیے پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر خطّے میں کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے، لیکن عالمی برادری کو اس کے ثبوت دینے میں ناکامی کے ساتھ مودی اور اس کی حکومت کو بھارت کی مختلف سیاسی جماعتوں اور وہاں کے سنجیدہ و باشعور عوام کی جانب سے بھی کڑی تنقید کا سامنا ہے۔

بھارتی ڈرامہ تو ابھی جاری ہے، جس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے وہاں کا میڈیا بھی مکمل جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھوٹ کا سہارا لے رہا ہے، لیکن سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کے علاوہ خود بھارت میں بسنے والے بھی اس پر لب کشائی کررہے ہیں اور بھارتی حکومت عالمی سطح پر اپنا مذاق بنوا رہی ہے۔ پاکستان ایک جوہری قوت ہے اور خطّے میں تزویراتی حیثیت رکھتا ہے جس کا بھارت کو ادراک ہونا چاہیے۔ ہندوستان کے جوہری تجربات کے بعد پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کر کے بھارت پر ثابت کر دیا تھا کہ پاکستان کسی بھی قیمت پر خطّے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنا اور اپنی سرحدوں کا دفاع مضبوط بنانا چاہے گا۔ حکومتِ پاکستان اپنی افواج کی پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ انھیں جدید اسلحہ اور ہر قسم کی ٹیکنالوجی کی فراہمی یقینی بنائے گی۔

ہم چلتے ہیں اکتوبر 1954ء کی طرف جب پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے امریکی صدر آئزن ہاور سے ملاقات کی تھی۔ پاکستان نے امریکی منصوبے ایٹم برائے امن (ایٹم فار پیس) میں شمولیت کے ساتھ جوہری توانائی کے شعبہ میں تحقیق اور ترقی کے لیے جوہری توانائی کمیشن کے قیام کا اعلان بھی کیا تھا۔ یہی دراصل پاکستان کا آزاد اور ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے جوہری پروگرام کی تیاری کا آغاز تھا جس میں یہ بات شامل تھی کہ پاکستان جوہری توانائی، اسلحہ کی تیاری کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔ اس موضوع پر بی بی سی کی 2004 کی ایک رپورٹ کے مطابق اسی کے فورا بعد امریکہ اور پاکستان کے درمیان فوجی، سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں ہمہ گیر قربت اور تعاون کا دور شروع ہوا جس سے ملکی سطح پر ماحول میں‌ کچھ گرما گرمی پیدا ہوئی لیکن وہ ایک الگ بحث ہے، البتہ ساٹھ کی دہائی میں سنائی دیا کہ بھارت جوہری تجربات کرسکتا ہے۔ اس پر اعلیٰ‌ سیاسی اور عسکری حلقوں میں پاکستان کے حوالے سے کچھ باتیں‌ ہوئیں، مگر تب بھی پاکستان نے جوہری تجربات کی طرف قدم نہیں بڑھایا تھا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو جوہری قوت بنانے کا منصوبہ شروع کیا۔ اس وقت بی بی سی نے لکھا تھا کہ صدر کے عہدہ پر فائز ہونے کے فوراً بعد بھٹو نے ایران، ترکی، مرکش، الجزائر، تیونس، لیبیا ، مصر اور شام کا طوفانی دورہ کیا تھا۔ اس کا ایک مقصد مسلم ممالک سے تجدید تعلقات تھا اور دوسرا پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیے مسلم ملکوں کی مالی اعانت حاصل کرنا تھا۔ اس دورہ کے فورا بعد انہوں نے سن تہتر میں پاکستان کے جوہری اسلحہ کی صلاحیت حاصل کرنے کے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا اور اس سلسلہ میں انہوں نے جوہری توانائی کمیشن کے سربراہ کو تبدیل کیا اور اعلی سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام کو برطرف کر کے ہالینڈ سے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو پاکستان بلا بھیجا۔ اسی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیے انہوں نے فرانسسی حکومت کو جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پرانی پیشکش کی تجدید کے لئے آمادہ کیا۔ بھٹو جوہری پروگرام میں جس تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے اسے امریکہ نے قطعی پسند نہیں کیا اور اس زمانہ کے وزیر خارجہ کیسنجر نے تو کھلم کھلا دھمکی دی تھی کہ اگر بھٹو نے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ کے منصوبہ پر اصرار کیا تو وہ نہ رہیں گے۔

بھٹو تو نہیں رہے، گر ان کا جوہری صلاحیت کا شروع کردہ پروگرام آگے بڑھتا رہا۔ پاکستانی سائنس دانوں نے کہوٹہ کی تجربہ گاہ میں سنہ 78 میں کام یابی حاصل کر لی اور اگلے چار سال میں نوے فی صد افزودگی کے قابل ہو گئے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا دعویٰ تھا کہ پاکستانی سائنس دانوں نے 1984ء میں جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی جس کا تجربہ مئی 1998ء میں بھارت کے جوہری تجربات کے جواب میں کیا گیا۔

سینیئر صحافی، تجزیہ کار اور متعدد کتب کے مصنف نصرت مرزا نے ملک کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ پر اپنے مختصر کالم میں لکھا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ابتدا امریکا کے 1953ء ایٹم برائے امن کے پروگرام سے ہوئی۔ پاکستان 1956ء سے 1971ء تک پُرامن ایٹمی پروگرام پر سختی سے قائم رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 24 جنوری 1972 کو معروف فزکس سائنسدانوں کو نواب صادق حسین قریشی کے گھر ملتان میں ان کے باغیچہ میں ایک شامیانے کے اندر جمع کیا اور نیوکلیئر بم بنانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس موقع پر غلام اسحاق خان بھی موجود تھے۔ تین سائنس دانوں نے اپنی خدمات پیش کیں ان میں ڈاکٹر ثمر مبارک، منیر احمد خان جو ویانا سے حال ہی میں واپس آئے تھے اور سلطان بشیر الدین محمود شامل تھے۔ابھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کام شروع ہی ہوا تھا کہ 1974ء میں انڈیا نے پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تیز رفتار راستہ اختیار کرنے کا سوچا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے، جو اس وقت یورپ میں ایٹمی پروگرام پر کام کررہے تھے، اپنی خدمات پیش کیں۔ ان کو کہوٹہ راولپنڈی کے مقام پر لیبارٹری بنا کر دی گئی۔ نصرت مرزا اپنے کالم میں لکھتے ہیں‌ کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام قوم کی امانت ہے، اس نے قوم کو دشمن کے خطرے سے محفوظ بنا دیا ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں