ہندوستان میں دلّی، لکھنؤ، دکن اور دیگر ریاستیں جب تک خود مختار اور خوش حال رہیں، وہاں کے نواب اور امراء کی شان و شوکت اور آن بان بھی سلامت رہی۔ ان کے دسترخوان بھی خوب سجائے جاتے تھے۔ شادی بیاہ اور تہوار وغیرہ تو ایک طرف عام دنوں میں بھی ضیافتیں نوابوں کے محل اور کوٹھیوں کی رونق میں اضافہ کرتی تھیں۔
اس دور میں ماہر طباخ اور رکاب دار ہندوستان میں موجود تھے جو نہایت لذیذ اور عمدہ کھانے تیار کرتے تھے طرح طرح کے نمکین اور میٹھے کھانے لطافت، نفاست اور کمال مہارت کے ساتھ بنائے جانے کے بعد جس طرح چُنے جاتے وہ بھی ایک فن تھا اسی دور کے ایک رکاب دار کا تذکرہ مرزا جعفر حسین نے یوں رقم کیا ہے:
اسی طرح ایک کلاس رکاب داروں کا حَسن گنج پار میں آباد تھا۔ یہ لوگ جاڑوں میں جوزی حلوا سوہن، پیڑیاں اور مختلف قسم کے حلوے اور گرمیوں میں چٹنیاں، رُب اور مربّے بناتے تھے۔ ہر رکاب دار کسی نہ کسی رئیس کی ڈیوڑھی سے وابستہ تھا۔ ہر زمانے میں دوسرے تیسرے روز سامان تیار کر کے لاتا اور ایک ہی ٹھکانے فروخت کر کے فرصت حاصل کر لیتا تھا۔ اس طبقے پر بھی بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں زوال آگیا تھا۔ لیکن ایک خوش نصیب رکاب دار کا واقعہ دل چسپ ہے۔ اس شخص کا نام اعظم علی یا عظیم اللہ تھا۔ یہ میرے گھرانے سے منسلک تھا۔ اسی سال جب کہ میں وکالت کے پیشے میں داخل ہوا تھا اُس نے مجھ سے خواہش کی کہ میں اُس کی وکالت شیخ مستنصر اللہ صاحب مرحوم ڈپٹی کلکٹر کے اجلاس پر کر دوں۔ میں نے فوج داری کی عدالتوں سے غیر متعلق ہونے کی بنا پر بہت کچھ معذرت چاہی مگر وہ نہ مانا اور مجھے زبردستی اس لیے لے گیا کہ شیخ صاحب مرحوم سے میرے مراسم تھے۔
یہ مقدمہ قمار بازی کا تھا۔ عدالت نے مجھے دیکھا، پھر مؤکل کو گھورا اور مجھ سے فرمایا کہ یہ آپ کو اس لیے لایا ہے کہ اس کی سزا کم ہو جائے، میں اس پر کئی بار جرمانہ کر چکا ہوں آج پھر جرمانہ کر دوں گا۔ مگر آئندہ پھر چالان ہوا تو ضرور جیل کی سزا دوں گا۔ شیخ صاحب پرانے طرز کے حاکم تھے، اُن کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی یہ ساری کارروائی ان کے یہاں اردو میں ہوئی تھی۔ انھوں نے ہر حال پچاس روپیہ جرمانہ کیا، ملزم نے فوراً جمع کر دیا۔ مگر اسی وقت سے وہ مفرور ہوگیا۔ اس واقعہ کے تخمیناً آٹھ برس کے بعد میں نے حیدرآباد دکن کی ایک عالی شان دکان پر یہ بورڈ لگا دیکھا۔ ”شاہانِ اودھ کے دربار کا رکاب دار“ میں بے حد اشتیاق کے ساتھ دکان کے اندر چلا گیا تو دیکھا کہ میاں عظیم اللہ ایک تخت پر قالین، گاؤ اور تکیے کے فرش و آرائش سمیت ایک بڑی نفیس سٹک (حقہ کا حصّہ) کے دَم گھسیٹ رہے ہیں۔ انھوں نے بڑے احترام کے ساتھ میرا استقبال کیا اور میری بہت تواضع کی۔
حالات دریافت کرنے پر انھوں نے فرمایا کہ ”جوا چھوٹ نہیں سکتا تھا لہٰذا جیل جانے کے ڈر سے شہر چھوڑ دیا۔ یہاں آ کر دکان کھولی، حسن اتفاق سے سرکار نظام کی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ اللہ کی رحمت سے کاروبار میں فروغ ہو گیا اور خدا کے فضل سے بہت آرام ہے۔“