پیر, مئی 5, 2025
اشتہار

محاذ پر رسد بھیجنے میں‌ پاکستانی فوجیوں کا ہاتھ بٹانے والے جوشیلے نوجوان

اشتہار

حیرت انگیز

پہلگام حملے کے بعد بھارت کی الزام تراشیاں اور ریاستی سطح پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا اس کے جنگی جنون کو ظاہر کرتا ہے۔ بھارت اس حوالے سے ٹھوس شواہد اور ثبوت سامنے رکھے بغیر اس حملے میں پاکستان کو ملوث کر رہا ہے اور بھارتی میڈیا پر جھوٹ اور پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔

تاریخ‌ گواہ ہے کہ جب بھی دشمن نے عسکری برتری کے زعم اور گولہ بارود کے گھمنڈ میں پاکستان پر حملہ کیا، اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور عالمی سطح پر جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ لیکن بھارتی میڈیا اور اس پر نمودار ہونے والے نام نہاد سورماؤں کو نہ تو کبھی اپنا قومی وقار عزیز رہا ہے اور نہ ہی وہ بحیثیت ایک ذمہ دار ریاست دنیا کے سامنے اپنی ساکھ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں جو ان کی جارحانہ سوچ اور جنگی جنون کی مثال ہے جو خطّے میں امن و سلامتی کی فضا کو برباد کررہا ہے۔

1965ء کی جنگ میں پاکستان کے مختلف شہروں سے عوام اپنے فوجی بھائیوں کے شانہ بہ شانہ مختلف محاذوں پر دشمن کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے پہنچے تھے اور جذبۂ شہادت سے سرشار ہوکر بے جگری سے لڑے تھے۔ آج ایک مرتبہ پھر دشمن نے جنگ کا ماحول پیدا کیا ہے تو قوم میں ایک مرتبہ پھر جوش و ولولہ نظر آرہا ہے۔ 65 کی جنگ سے متعلق ممتاز ادیب شاہد احمد دہلوی کی ایک تحریر سے یہ اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

"پاکستان سے چھے گنی فوجی طاقت اور چار گنی آبادی کے زعم میں بھارت نے پاکستان پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی تھی، مگر یہ حق اور باطل کی لڑائی تھی۔ چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی کی ستیزہ کاری تھی۔

نتیجہ آپ نے اور ہم نے بھی دیکھ لیا اور دنیا نے بھی۔ پاکستان کے لیے یہ جنگ ایک رحمت ثابت ہوئی۔ یہ ایک ایسا غیبی جھٹکا تھا جس نے اہلِ وطن کو متفق و متحد کر دیا اور پوری قوم میں ایک نئی لہر دوڑ گئی۔

لاہور والوں نے تو کمال ہی کر دیا کہ دشمن کے ٹینک اور فوجیں شہر سے کوئی آٹھ میل کے فاصلے پر آگئیں تھیں اور ہماری فوجیں ان کے پرخچے اڑا رہی تھیں کہ شہر کے جیالے جو کچھ ہاتھ میں آیا، لے کر دشمن کو مارنے گھر سے نکل پڑے۔ ان کے پیچھے لڑکیاں اور عورتیں بھی چل پڑیں اور سب کے سب دم کے دم میں شالیمار پہنچ گئے۔

ہماری فوجوں کے پچھلے دستوں نے انھیں روکا۔ ورنہ حیدرآباد کے رضا کاروں کی طرح یہ سب بھی ٹینکوں کے آگے لیٹ جاتے اور دشمن کو للکارتے کہ جب تک ہم زندہ ہیں تو ہمارے شہر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پہلے تجھے ہماری لاشوں پر گزرنا پڑے گا، مگر اس کی نوبت نہ آئی۔

ہماری فوجوں نے بڑی مشکل سے انھیں سمجھا بجھا کے واپس کیا کہ آپ شہر کا انتظام کیجیے، یہاں ہمیں دشمن سے نمٹنے دیجیے۔ آپ پر آنچ اس وقت آئے گی جب ہم نہ ہوں گے۔ اس پر بھی جوشیلے نوجوانوں نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور محاذ پر رسد بھیجنے میں‌ فوجیوں کا ہاتھ بٹاتے رہے۔”

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں