کراچی: 14 اگست 2023 کو سکھر میں قتل ہونے والے صحافی جان محمد مہر کا قاتل شکارپور پولیس سے مقابلے کے دوران ہلاک ہوگیا۔
وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ صحافی جان محمد مہر کا قاتل شیرو مہر شکارپور پولیس مقابلے میں مارا گیا، سندھ پولیس نے صحافی کے قاتل کو منطقی انجام تک پہنچایا۔
ادھر، وزیر توانائی سندھ ناصر حسین شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ صحافی جان محمد مہر کا قاتل شیرو مہر مقابلے میں مارا گیا، پولیس نے کوشش کی تھی ملزم کو زندہ گرفتار کیا جائے، شکارپور پولیس ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صحافی جان محمد مہر کے قاتل کا اہم سہولت کار گرفتار
ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب نے بتایا کہ صحافی جان محمد مہر قتل کیس کا مرکزی ملزم شیرو ہلاک ہوگیا، کچے میں آپریشن کے دوران ملزم کے بیٹے کی ہلاکت کی بھی اطلاع ہے، آپریشن کے دوران متعدد ڈاکوؤں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ناصر آفتاب کے مطابق سندھ حکومت نے مرکزی ملزم کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کی تھی۔
شکارپور پولیس کیلیے تعریفی اسناد کا اعلان
وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے شکارپور پولیس کیلیے تعریفی اسناد کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس کی کاوشوں کو سراہتے ہیں، پولیس کی پیشہ ورانہ مہارت اور جرأت قابلِ تحسین ہے۔
ضیا الحسن لنجار نے کہا کہ یہ کامیاب کارروائی قانون کی بالادستی کا واضح پیغام ہے، سندھ حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلیے اقدامات کر رہی ہے، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
سکھر سے تعلق رکھنے والے صحافی جان محمد مہر کو 14 اگست 2023 کو سکھر میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
مقتول پر حملہ اُس وقت کیا گیا جب وہ اپنے دفتر سے گھر جا رہے تھے۔ حملہ آوروں نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں انہیں سر، آنکھ، گلے اور کلائی میں گولیاں لگیں۔ انہیں فوری طور پر نجی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے ایف آئی آر میں 11 نامزد اور 3 نامعلوم افراد کو ملزم ٹھہرایا تھا۔ مقتول کے بھائی نے شکایت کی کہ جان محمد مہر کو بااثر افراد سے دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں اور انہیں ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا۔
قتل کی تحقیقات کیلیے 7 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی تھی جس میں آئی ایس آئی، ایم آئی، رینجرز، ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے افسران شامل تھے۔