پیر, مئی 19, 2025
اشتہار

ایم۔ اے۔ او۔ کالج: مسلمانوں نے کیا کھویا، کیا پایا!

اشتہار

حیرت انگیز

سر سید کا دوسرا اہم کارنامہ ایم۔ اے۔ اُو۔ کالج کا قیام ہے۔ سرسید کے خیال میں قوم کو اعلیٰ مرتبہ بخشنے کا واحد علاج صرف تعلیم تھا۔ اسی کے خیال تحت سرسید نے ایک کالج قائم کرنے کا خاکہ اپنے ذہن میں بنایا۔ سر سید کے بیٹے سید محمود نے باقاعدہ اس کے اصول و ضوابط تیار کیے۔ اور 1875ء میں یہ مدرسہ کی شکل میں علی گڑھ میں قائم کیا گیا، جس کا نام مدرسۃُ العلوم محمڈن اینگلو اورینٹل کالج رکھا گیا۔

اس کالج کو کھولنے سے قبل سر سید اپنا معرکہ آرا اخبار "تہذیب الاخلاق” نکالتے تھے۔ لیکن اس کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد انھوں نے اپنے اس محبوب اخبار کو بند کر دینے کا اعلان کر دیا اور نوکری سے پنشن لے کر مستقل طور پر علی گڑھ میں آ کر بس گئے۔ اگرچہ "تہذیب الاخلاق” نے دم توڑنے کے بعد پھر سانس لینے کی کوشش کی، لیکن سر سید کی دل چسپی اس کالج کی طرف ہو جانے کی وجہ سے اس اخبار کو حیات نہ مل سکی۔ دوسرے کام بھی بے توجہی سے ہونے لگے۔ اس کی وجہ صرف یہ کالج تھی۔ ڈاکٹر سید عابد حسین لکھتے ہیں: "غرض اصلاح و تجدید کی جو تحریک سر سید احمد خاں نے بائبل کی تفسیر لکھ کر "سائنٹیفک سوسائٹی” قائم کر کے اور "تہذیب الاخلاق” نکال کر کم و بیش بارہ برس سے شروع کر رکھی تھی اور جس نے مسلمانوں کے ایک سمجھدار طبقے کے ذہن میں ہلچل پیدا کر دی تھی، ان کے پنشن لے کر علی گڑھ میں قیام کرنے کے بعد کچھ ٹھنڈی سی پڑ گئی۔ اس کی وجہ صرف اتنی نہیں تھی کہ اب اس تحریک کو سر سید صاحب کے وقت اور توجہ کا بہت تھوڑا حصہ نصیب ہوتا تھا، بلکہ یہ بھی تھی کہ ان ذی اقتدار مسلمانوں خصوصاً بڑے زمینداروں کی خاطر جن کی مدد سے انھوں نے ایم۔ اے۔ او۔ کالج قائم کیا تھا۔”

یہی ایم۔ اے۔ او۔ کالج آگے چل کر مسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کر گیا۔ سرسید نے اس کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
(1) پہلا مدرسہ انگریزی کا ہو گا۔ اس میں بالکل انگریزی پڑھائی جائے گی اور تمام علوم و فنون جن میں تعلیم ہو گی۔ سب انگریزی ہو گی۔
(2) دوسرا مدرسہ ایسا ہو گا جس میں تمام علوم و فنون بہ زبان اردو پڑھائے جائیں گے۔ اور جو کچھ اس میں تعلیم ہو گی سب اردو میں ہو گی۔
(3) عربی و فارسی کا مدرسہ جن میں ان انگریزی اور اردو مدرسوں کے فارغ التحصیل طلبہ کو جنھوں نے علوم و فنون پڑھ لینے کے بعد عربی فارسی کے لٹریچر و علوم میں کمال حاصل کرنے کا ارادہ کیا ہو گا تو ان کی پڑھائی فارسی، عربی میں اعلیٰ درجہ تک کی اس مدرسہ میں ہو گی۔

نتیجہ کے طور پر یہ کالج اپنے انھیں مقاصد کو پورا کرتا ہوا 1920ء میں مسلم یونیورسٹی کے اسٹیج پر پہنچ گیا لیکن ڈاکٹر عابد حسین کے خیال کے مطابق یہ کالج آگے بڑھ کر سر سید کے منشاء کو پورا نہیں کرتا۔ اس وجہ سے کہ سر سید احمد خاں اپنے اس کالج سے چار قسم کے تعلیم یافتہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔
(الف) وہ جو انگریزی کے ذریعہ تعلیم حاصل کر کے سرکاری عہدے اور عزتیں پائیں۔
(ب) وہ جو انگریزی کے ذریعہ تعلیم حاصل کر کے مغربی علوم کو اردو میں منتقل کریں۔
(ج) وہ جو اردو تعلیم پا کر لیاقت کامل حاصل کریں۔ جس کا معیار انگلستان کے کالجوں کے برابر ہوتا ان کو ہر وقت اور ہر عمل پر اپنے علم کی ترقی کا موقع ہو۔
(د) وہ جو عربی فارسی میں کمال حاصل کریں، تاکہ مسلمانوں کے قدیم مذہبی اور تہذیبی سرمایہ کو موجودہ انسانوں تک پہونچا سکیں۔

لیکن ان میں سے دو نکات، دوسرا (ب) اور چوتھا (د) مقصد سر سید خاص طور پر پورا کرنا چاہتے تھے اور اس میں بھی دوسرا مقصد سب سے اہم تھا۔ لیکن ایک پیچیدگی یہ تھی کہ جن سے معاشی امداد حاصل کر کے اس کالج کو چلا رہے تھے، ان حضرت کو دل چسپی صرف پہلے مقصد سے تھی۔ یعنی تنہا انگریزی تعلیم حاصل کر کے اچھی نوکری اور عزت حاصل کر سکیں۔ نتیجہ کے طور پر ابتدا سے ہی اس مقصد پر زیادہ زور دیا گیا اور کالج ان سے عطیہ لے کر آگے بڑھتا رہا۔ ایک ہی طبقہ زیادہ تر تعلیم حاصل کرنے لگا اور سر سید کے دوسرے مقاصد تقریباً بے تعلق سے ہو گئے، عربی، فارسی اور مذہبی افکار تو اس کالج کے ذریعہ مسلمانوں کے کسی طبقہ میں مقبول نہ ہوسکے۔ لیکن پھر بھی مجموعی اعتبار سے اس کالج نے قوم کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔

سرسید کی اس تحریک نے رفتہ رفتہ زور پکڑ ہی لیا اور اس کے آگے آنے والی تمام دوسری تحریکیں اپنے آپ فنا ہوتی گئیں۔

ایم۔ اے۔ اُو۔ کالج اپنی بعض دیگر خصوصیات کی وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ کالج باہمی تعصبات سے بالکل پاک تھا۔ کالج کے قیام کے بعد سب سے پہلا ایڈریس مہاراجہ سر مہندر سنگھ فرماں روائے پٹیالہ کی خدمات میں تھا۔ جب ان کی خدمات میں سر سید نے اپنے کالج کا ایجنڈا رکھا تو جواب میں مہاراجہ نے کہا: "اس سوسائٹی کا یہ مقصد ہے کہ اہل ہند خواہ کسی ملت و مشرب کے ہوں ان کو فائدہ پہونچے اور مدرسۃ العلوم کی تدبیر میں اس سے بھی عمدہ اصول کو ملحوظ رکھا گیا ہے، جس میں تعلیم اور علوم عقلیہ کی بلا اختلاف ملت و مذہب یکساں ہو۔ میری دانست میں آپ بانیوں کی یہ دانش مندانہ تدبیر بالتخصیص نہایت عمدہ ہے۔”

اس کے علاوہ دیگر مہاراجوں کی تقاریر وغیرہ میں بھی اس بات کا اعلان ملتا ہے کہ کالج کی بنیاد باہمی رواداری اور ترقی کے اصولوں پر ہے۔ کالج نے اپنے اثرات دکھانے شروع کیے۔ ماحول بھی خوشگوار ملا۔ لوگوں کے دل و دماغ میں اس کے صحیح اور سچے اصول بسنے لگے۔ جناب ہارون خاں شروانی لکھتے ہیں : "یہ وہ زمانہ تھا کہ فرقہ واریت کا ڈنک ہندستان کے جسم میں پیوست نہیں ہوا تھا۔ اور اب جو سید احمد خاں نے علی گڑھ کالج بنایا تو اس کی بنیاد میں بے تعصبی کی سیمنٹ کی پچکاریاں لگا کر ایک ایسی عمارت کھڑی کی جس کا ثانی ہندستان میں ملنا دشوار ہے۔”

اور یہ حقیقت ہے کہ سر سید نے واقعی اس کالج کو تعصب اور تنگ نظری سے بہت دور رکھا۔ ان کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ آپس کی دوری اور ناسمجھی ہمیشہ ہمیش کے لیے ختم ہو جائے۔ ابتدا ہی سے اس کالج کے اصول اور مقاصد اس انداز سے بنائے جس میں ہندستان کے مختلف مذاہب، قومیں بلا جھجھک آسانی سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ اتنی آزادی اور کھلے ذہن سے سوچنا سرسید کے علاوہ کسی دوسرے کے یہاں مشکل سے نظر آتا ہے۔ علی گڑھ کالج کے متعلق انھوں نے اپنی پالیسی بے حد ایمان دارانہ اور آزادانہ رکھی۔ ہاں یہ بات اہم اور سچ ہے کہ اصل مقصد مسلمانوں کو ضرورت کے مطابق تعلیم کی طرف موڑنا تھا، لیکن وہ ہندو اور مسلم کو قریب بھی لانا چاہتے تھے۔ اس پالیسی کا ایک جگہ تفصیل سے ذکر کرتے ہیں: "مجھ کوافسوس ہو گا اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ یہ کالج ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان امتیاز ظاہر کرنے کی غرض سے قائم کیا گیا ہے۔ خاص سبب جو اس کالج کے قائم کرنے کا ہوا یہ تھا کہ جب میں یقین کرتا ہوں آپ واقف ہیں کہ مسلمان روز بروز زیادہ تر ذلیل اور محتاج ہوتے جاتے ہیں۔ ان کے مذہبی تعصبات نے ان کو اس تعلیم سے فائدہ اٹھانے سے باز رکھا تھا جو سرکاری کالجوں اور مدرسوں میں مہیا کی گئی تھیں اور اسی وجہ سے یہ امر ضروری خیال کیا گیا کہ ان کے واسطے کوئی خاص انتظام کیا جائے۔ میں اس بات سے خوش ہوں کہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں دونوں بھائی ایک ہی سی تعلیم پاتے ہیں۔ بلا کسی قید کے اس شخص سے بھی متعلق ہیں جو اپنے تئیں ہند بیان کرتا ہے۔ کالج سے تمام حقوق جو اس شخص سے متعلق ہیں جو اپنے تئیں مسلمان کہلاتا ہے، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ذرا بھی امتیاز نہیں۔”

غیر مسلم طالب علموں کے لیے ہی اس میں جگہ نہ تھی بلکہ اسٹاف میں بھی ہندو نظر آتے ہیں۔ جادو چند چکرورتی اور پنڈت شیو شنکر کے نام سب سے اہم ہیں۔ چکرورتی صاحب سید صاحب کے خاص دوستوں اور بزرگوں میں سے تھے۔

اب اس امر پر قدرے غور کرنا ہے کہ حقیقتاً سر سید کا جو مقصد تھا اس کالج کو قائم کرنے کا، اس میں ان کو کہاں تک کامیابی مل سکی۔ اور اس نے مسلمانوں کے سیاسی، معاشی، مذہبی زندگی کو کس انداز سے متاثر کیا۔ پروفیسر احتشام حسین کا خیال ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سر سید کے ہی آئینہ میں اس تحریک کو دیکھنا زیادہ مفید ہو گا اور شاید اسی وجہ سے انھوں نے تحریک سے بحث اٹھائی ہے تو پہلے سر سید کے کارناموں پر سرسری نظر ڈالی ہے۔

پروفیسراحتشام حسین کا تحریک کے بارے میں اس نقطۂ نظر سے سوچنا بڑی حد تک مناسب اور درست ہے۔ ویسے تو سر سید کی پوری زندگی عملی کارناموں سے لبریز ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی سوسائیٹیاں قائم کر چکے تھے۔ مدرسوں کی بنیاد ڈال چکے تھے۔ چونکہ وہ بدلتی ہوئی فضا کا اندازہ لگانا بخوبی جانتے تھے اس وجہ سے جس کام میں انھیں قوم کی بھلائی کے عناصر زیادہ نظر آنے لگتے تھے ادھر وہ مڑ جاتے تھے اور شاید اسی وجہ سے "تہذیب الاخلاق "جیسے نامور اور کامیاب رسالے کو نظر انداز کر کے اس کالج کی طرف گھوم گئے۔ شاید وقت کا تقاضا ہی کچھ ایسا تھا۔

نئے علوم کو حاصل کرنے کے لیے، مذہبی تنگ نظری کو دور کرنے کے لیے، مسلمانوں کو مایوسی کے جہنم سے نکالنے کے لیے حقیقتاً اس کالج نے بہت بڑا رول ادا کیا اور عوام کی بیداری کو وسیع کیا۔ پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں: "علی گڑھ کالج محض ایک علامت تھا اس نئی زندگی میں داخل ہونے کی جو اپنا در کھولے ہوئے اندر آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ اس دروازے کے اندر مختلف قسم کے کارواں داخل ہو رہے تھے۔ کچھ یوں ہی آنکھ بند کیے ہوئے۔ کچھ گرد و پیش کا اندازہ لگاتے ہوئے۔ سر سید جس کارواں کو لیے آگے بڑھ رہے تھے اس میں مختلف قسم کے لوگ تھے، لیکن بہم طور پر سبھوں کے دل میں یہ خواہش تھی کہ وقت نے راہ میں جو رکاوٹیں ڈال رکھی ہیں انھیں عبور کر کے اپنی مادی اور روحانی زندگی کو بہتر بنایا جائے۔ یہی جستجو اور آگے بڑھنے کی یہی کوشش ہے جسے علی گڑھ تحریک کہا جاتا ہے۔ اس میں فتح مندی کے سنگ میل بھی ہیں اور ناروا سمجھوتے بھی۔”

اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں اس تحریک کا حاصل مقصد ہندو مسلم اتحاد اور مسلمانوں میں تعلیم جدید عام کرنا تھا۔ کیونکہ انگریزی حکومت نے غدر کے بعد اپنی برتری حاصل رکھنے کے لیے دونوں قوموں کے اتحاد میں ٹھیس لگانے کی پیہم مہم جاری رکھی تھی۔ انگریزوں کو یہ خدشہ ہر وقت رہتا تھا کہ ان دونوں میں کہیں اتحاد نہ قائم ہو جائے۔

1856ء میں گورنر جنرل لارڈ کیننگ نے جب اپنا عہد ہ سنبھالا تو اس وقت یہ کہا، "میں اپنے عہد حکومت میں امن چاہتا ہوں، لیکن میں اس بات کو اپنے ذہن سے نہیں نکال سکتاکہ کہیں ایسا نہ ہو ہندستان کے افق پر جو بظاہر پرسکون اور خاموش نظر آتا ہے بادل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ابھر آئے۔ شاید یہ ٹکڑا آدمی کی ہتھیلی سے بڑا نہ ہو، لیکن بڑھتا ہی جائے۔ یہاں تک کہ یکایک طوفان کی طرح پھٹ پڑے، اور ہمیں برباد کرنے کی دھمکی دینے لگے۔” اور اسی خیال کے تحت سر سید نے اپنے اس کالج میں مسلم اور غیرمسلم دونوں کو ایک مقام دیا اور انھیں ایک دلھن کی دو خوبصورت رسیلی آنکھوں سے تشبیہ دی۔

جیوں جیوں وقت گزرتا رہا حالات کروٹ لیتے رہے۔ قومی تحریک نے جڑ پکڑی۔ انڈین کانگریس کی بنیاد پڑی، وہ بھی انگریزوں کے ذریعہ۔ اور جلد ہی وہ بھی ایک ادارے کی شکل اختیار کر گئی اور دو ہی سال کے اندر اس کے جلسے ہونے لگے۔ پوری کامیابی اور کامرانی کے ساتھ کانگریس کے اس ادارہ کا یہاں تذکرہ محض اس وجہ سے کیا گیا کیونکہ اس کا اثر براہ راست علی گڑھ تحریک پر پڑتا ہے۔ ابتدا میں سر سید خاموش رہے۔ لیکن رفتہ رفتہ سر سید کے سوچنے کا طریقہ بدلتا گیا اور وہ اس ادارہ سے دور رہنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر میں مخالفت بھی کی اور مسلمانوں کو اس میں حصہ لینے سے روکا بھی۔ دراصل انگریزی تعلیم کو حاصل کرنے میں سر سید اتنی بری طرح سے پیچھے لگ گئے کہ انھوں نے رفتہ رفتہ مسلمانوں کو یہ یقین دلانا شروع کر دیا کہ صرف انگریز ہی مسلمانوں کے دوست ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انڈین نیشنل کانگریس جن اصولوں پر یقین کرتی تھی سر سید اس کے بالکل مخالف انداز سے سوچتے تھے۔ مسلمانوں سے متعلق ان کا ایک الگ تصور تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلمان آٹا اور دال نہیں بیچ سکتے۔ صرف تعلیم ہی ان کے کام آئے گی۔ اس دو تین سال کے عرصہ میں ایک کش مکش دیکھنے کو ملتی ہے، خصوصاً سرسید کے مزاج میں زیادہ۔ انگریزوں کے پیچھے بعض مرتبہ تو وہ آنکھ بند کر کے بھاگنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علی گڑھ تحریک ابتدا میں جن اصولوں کولے کر چلی تھی وہ محدود ہوتے گئے۔ بقول پروفیسراحتشام حسین: "علی گڈھ تحریک اس طرح آہستہ آہستہ تضاد کا شکار ہوتی گئی اور سر سید کے غیر معمولی ذہن نے اپنی کمان سے ترقی کے تیر نکال کر رجعت پسندی کے تیر لگا لیے۔ جس سے خود ان کی تحریک زخمی ہو گئی۔”

یہ نتیجہ حالات کے تیزی سے کروٹ بدلنے پر برآمد ہوا۔ لیکن اس کے باوجود تحریک کی عظمت سے انکار قطعی نہیں ہوسکتا۔ اس تحریک نے ایسے حالات میں مسلمانوں کو سہارا دیا ہے، جب وہ بے بسی اور مایوسی کے دوراہے پر کھڑے تھے۔ اس نے ہندستان کے مسلمانوں کا صرف ساتھ ہی نہیں دیا، بلکہ ایسے چنگل سے نکالا ہے جس میں وہ بری طرح سے جکڑے ہوئے تھے۔

بقول پروفیسر احتشام حسین: "انیسویں صدی کے وسط میں جب مسلمان کئی راستوں کے مقامِ استیصال پر پہونچ کر راستہ ڈھونڈنے کی ہمت کھو چکے تھے۔ نہ پیچھے پلٹ سکتے تھے، نہ آگے بڑھنے کی جرأت تھی۔ اسی وقت علی گڑھ تحریک نے انھیں آگے بڑھنا سکھایا، لیکن پوری طرح یہ نہ بتا سکی کہ کون سا راستہ کدھر جاتا ہے۔”

(اقتباس ہندستان 1857ء کے بعد از علی احمد فاطمی)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں