جمعہ, جون 6, 2025
اشتہار

پاک بھارت جنگ اور سمندر پار پاکستانی

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان اور بھارت کے درمیان چھڑپوں کے دوران ہم پاکستانیوں نے جس اطمینان، اور بے خوفی کا مظاہرہ کیا اس پر دنیا حیران ہے۔ جس طرح سمندری طوفان کے موقع پر مرکز میں خاموشی اور ٹھراؤ ہوتا ہے جب کہ اردگرد تلاطم برپا ہوتا ہے۔ شاید ایسا ہی وطن میں موجود پاکستانیوں کا حال تھا جو جنگ سے بے خوف اور مطمئن تھے۔ ان کی حس مزاح عروج پر تھی۔ مگر بیرون ملک پاکستانی جو کئی قومتیوں کے ساتھ رہتے ہیں، اُن دنوں بہت کچھ سہنے پر مجبور تھے اور بہت سے جذباتی لمحات ان کی زندگی کا حصہ بنے۔

دیارِ غیر میں‌ وطن کی فکر اور اپنوں سے دوری کا احساس انسان کو کس طرح نچوڑ دیتا ہے یہ تو کوئی سمندر پار پاکستانیوں سے پوچھے۔ ہم وطنوں پر کوئی افتاد ٹوٹ پڑے اور جب جنگ چھڑ جائے تو وطن سے دور بسنے والوں کی تڑپ کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہاں ہم آپ کو دیارِ غیر میں‌ مقیم چند پاکستانیوں کا احوال سنا رہے ہیں کہ جنگ کے دنوں میں وہاں ان پر کیا گزری۔

پہلگام واقعے کے بعد برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں اور بھارتی باشندوں کے درمیان لندن میں خوب دنگل ہوا۔ پاکستانی ہائی کمیشن اور بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے ہونے والے مظاہروں میں دوںوں ملکوں کے شہریوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی۔ ایک موقع پر پاکستانیوں نے بھارتیوں کو مفت چائے پلا کر ان کو بھارتی پائلٹ ابھینندن کی یاد دلائی۔ جب کہ بھارتی حملے کا پاکستان کی جانب سے جواب دینے پر لندن میں پاکستانیوں نے سڑکوں پر جشن بھی منایا اور اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

بھارتی جارحیت اور حملوں‌ کے بعد پاکستانی فوج کی جانب سے بھرپور اور منہ توڑ جواب دینے کے بعد جب جنگ بندی کا اعلان ہوا تو برطانوی اخبار نے لکھا کہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری لندن میں پارلیمنٹ اسکوائر میں جمع ہوگئے، فتح کا نشان بنایا، اور جنگ بندی کا خیر مقدم کیا۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے صحافیوں کو بتایا کہ سات مئی کے بعد سے وہ سوئے ہی نہیں تھے۔ مگر اب پاکستان کو جنگی محاذ پر فتح نصیب ہوگئی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کے حل کو کیا جانا چاہیے۔ خصوصا پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے علاوہ بھارت کی جانب سے انڈس واٹر معاہدے کی خلاف ورزی ان کے لئے باعث تشویش ہے۔

حارث یونس ایک پاکستانی نژاد برطانوی گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں۔ وہ ان دنوں طب کی تعلیم کے لیے جارجیا میں مقیم ہیں۔ وہ جس ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں اس میں وہ واحد پاکستانی ہیں۔ جب کہ بھارتیوں اور دیگر قومیتوں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد ساتھ رہتی ہے۔ جب سات مئی کو بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا تو بھارتی طلبہ کی بڑی تعداد ہاسٹل کے مرکزی ہال میں جمع ہوگئی اور بھارت کے حق میں نعرے لگانے لگے۔

واحد پاکستانی ہونے کی وجہ سے حارث بہت زیادہ پریشان رہے۔ وہ جانتے تھے کہ پاکستان نے بھی بھارت کے حملے کا بھرپور جواب دیا ہے۔ مگر وہ اس شور میں یہ بات کسی کو بتانے کے قابل نہیں تھے۔ مگر جب آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان نے دس مئی کو بھارت پر جوابی حملہ کیا تو حارث بھی مرکزی ہال میں پہنچ گئے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ پاکستانی فوج کے اس منہ توڑ جواب نے ان کو نڈر بنا دیا تھا اور وہ یہ فراموش کر بیٹھے کہ اس جگہ دشمن ملک کے کئی شہریوں کے درمیان وہ واحد پاکستانی ہیں اور یہاں کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہیں ہے۔ حارث بتاتے ہیں کہ بھارتی طلبہ تو اپنے کمروں میں ہی گھسے رہے۔ مگر دیگر قومیتوں کے طلبہ نے باہر نکل کر حارث کو مبارک باد دی اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔

برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں راجہ محمود ایک اہم ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔ وہ جہاں کام کرتے ہیں وہاں پر مخلتف قومیتوں کے لوگوں سے ملنا جلنا ہوتا ہے۔ جن میں افغان، نائجیرین، لبنان، شام و ایران اور عراق کے شہری شامل ہیں۔ سات مئی کو بھارت کے حملے کی خبر پر پہلے پہل تو دل دہل گیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ایسے حملوں میں بڑا جانی نقصان ہوسکتا ہے۔ مگر جب پاکستانی فضائیہ کے حملوں میں بھارتی طیاروں خصوصاًَ رافیل کے تباہ ہونے کی اطلاع آئی تو ان کی جان میں جان آئی۔ راجہ محمود کہتے ہیں کہ ہم پاکستانیوں کے علاوہ انگریز باشندے بھی اس جنگ پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ ان کے ایک دفتری ساتھی ڈیوڈ نے جنگ کے بارے میں دریافت کیا اور راجہ محمود نے بتایا کہ بھارت نے حملہ کیا تھا جس کے بعد پاکستانی فوج نے اس کے پانچ جہاز مار گرائے ہیں۔ تو ڈیوڈ نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایئر فورس نے چھے جہاز گرائے ہیں۔

روزینہ عمران پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔ وہ اپنی سماجی خدمات کی وجہ سے ہر قومیت کے لوگوں کے قریب ہیں اور ان کے حلقۂ احباب میں مختلف ممالک کے شہری شامل ہیں۔ پہلگام کے واقعے کے بعد ان کو اسی طاقت اور برتری کے جنون اور مذہبی تعصب پر مبنی رویے کا سامنا کرنا پڑا جسے خاص طور پر بھارت کی مودی سرکار کئی برس سے ہوا دے رہی ہے۔ وہ بتاتی ہیں‌ کہ ان کی ہندو شناسا کس طرح پہلگام واقعے کے بعد فون پر رسماً حال احوال پوچھنے کے بعد اس واقعے پر تبصرہ کرتیں اور بتاتیں کہ کیسے ہندو شناخت جاننے کے بعد لوگوں کو قتل کیا گیا۔ روزینہ کا کہنا ہے کہ جب ان سے سوال کیا جاتا کہ کیا کوئی ایک دہشت گرد پکڑا جاسکا، اس اہم سیاحتی مقام پر پولیس کیوں نہ تھی، پہلگام تک دہشت گرد کیسے پہنچ گئے اور اتنی آسانی سے فرار کیسے ہوگئے تو وہ جواب دینے کے بجائے بہانہ بنا کر فون بند کر دیتیں۔ پھر پاکستان پر بھارت نے حملہ کردیا لیکن ہماری فوج کی جوابی کارروائی میں بھارتی فضائیہ کا بڑا نقصان ہوا اور جنگ کے آغاز پر ہی پاکستان کا پلڑا بھاری ہوگیا تو ان کو کسی بھارتی دوست نے فون تک نہ کیا۔

شمائلہ متحدہ عرب امارات میں قائم انڈین اسکول میں ملازمت کرتی ہیں۔ بھارتی اسکول ہونے کے باوجود اس کی انتظامیہ اور اعلیٰ عہدوں پر مسلمان فائز ہیں۔ شمائلہ کا کہنا ہے کہ جب جنگ شروع ہوئی تو ہم بہت پریشان تھے کہ نجانے یہ سب کتنی جانیں لے کر جائے گا۔ مگر بھارت کو پہلے ہی حملے کے بعد پاکستان کی جانب سے کارروائی میں نقصان اٹھانا پڑا تو خاصا حوصلہ ہوا۔ بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے بعد پاکستانی تو خوش تھے ہی تھے۔ مگر بھارتی مسلمان بھی بہت خوش تھے کیونکہ وہاں ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جارہا ہے اور بھارتی حکومت اور انتظامیہ نے حیلے بہانوں اور ناانصافی پر مبنی قانون سازی سے مسلمانوں کے وقف اور زمینوں کو ہتھیانا شروع کر دیا ہے۔ ان حالات میں اقلیتیں بھلا کس دل سے بھارتی حکومت کا ساتھ دے سکتی ہیں۔ شمائلہ کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا ایک خاص ماحول ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے کھل کر تو پاک بھارت تنازع اور جنگ پر بات نہیں کی مگر دیگر ملکوں کے مسلمان اور خصوصاً عرب اساتذہ بہت خوش اور پرجوش نظر آئے۔ دس مئی کو جب پاکستان نے بھارتی فوج کو منہ توڑ جواب دیا اور بھرپور حملے کیے تو شمائلہ جہاں جاتیں انہیں مبروک مبروک کی آواز سنائی دیتیں۔

حادی کے والدین متحدہ عرب امارات میں ملازمت کے لئے سلسلے میں مقیم ہیں اور حادی بھی اپنے تعلیم وہیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاک بھارت کشیدگی کے بعد ان کے بھارتی کلاس فیلوز نے جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ حادی کا کہنا ہے کہ ان کو جواب دینے کا بہت دل کرتا تھا۔ مگر شروع میں وہ اس کا حوصلہ نہ کرسکے اور جب دس مئی کو پاکستان کا بھرپور جواب سامنے آیا تو حادی نے بھی کلاس میں اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا۔

راجہ ہارون دبئی ایئر پورٹ پر امارات ایئرلائن میں تقریباً دو دہائیوں سے ملازمت کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ کام کرتے ہیں۔ جب کہ ایک بڑی تعداد بھارتی شہریوں کی ہے۔ بھارتی شہریوں میں ہندوؤں کے علاوہ سکھ اور مسلمان بھی شامل ہیں۔ مگر ہندوؤں کا رویہ مجموعی طور پر غیردوستانہ ہوتا ہے۔

سات مئی کو جب بھارتیوں نے حملہ کیا تو ڈیوٹی پر موجود بھارتی ہندوؤں کے چہروں پر خوشی نمایاں تھی۔ وہ ایک دوسرے کو پرجوش انداز میں مبارک دے رہے تھے۔ ان کی باڈی لینگویج میں ایک احساس تفاخر نمایاں تھا۔ مگر ہم پاکستانی کم تعداد میں ہونے کے باوجود پر اعتماد تھے۔ اور بھارتی فضائیہ کے جنگی طیاروں کے گرنے کی خبر نے بھی بہت اعتماد دیا تھا۔ ہارون مزید کہتے ہیں کہ سات سے دس مئی کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان جو کچھ ہوا وہ ایک جذباتی معرکہ بھی تھا۔ وطن سے دور رہتے ہوئے میڈیا پر یہ سب سننا اور دیکھنا ایک الگ ہی نوعیت کا تجربہ تھا۔ ہماری زندگی کے لگ بھگ 50 یا 55 سال میں یہ پہلا موقع تھا کہ دونوں ملکوں نے اس بڑے پیمانے پر جنگ کی۔ سات مئی کی رات کو جب بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا تو پہلا ردعمل تو یہی تھا کہ یہ سراسر بیوقوفی ہے کہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ انسانی جانوں کو خطرہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ پھر پاکستان کی طرف سے بھارتی فضائیہ کے لڑاکا طیارے گرانے کی خبر سنی تو دل کو کسی قدر تسلی ہوئی مگر جذبات کسی طرح تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بہرحال فتح‌ کے بعد بھی ہماری مسلح افواج کی میڈیا بریفنگز، حکومت اور سرکاری و سفارتی عملہ کا طرزِ عمل بہت بہتر رہا جسے دنیا نے سراہا ہے۔

معرکۂ حق میں‌ فتح اور آپریشن بنیان مرصوص کی کام یابی نے بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں‌ کو بھی شاد باد کر دیا اور ان کے سر فخر سے بلند ہیں۔ سمندر پار اپنے غیر ملکی دوستوں اور حلقۂ احباب کی نظر میں‌ پاکستانیوں کا وقار بڑھ گیا ہے کہ یہ اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے بہادری اور شجاعت کے جذبے کے تحت اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو عبرت کا نشان بنا دیا ہے۔

اہم ترین

راجہ کامران
راجہ کامران
راجہ کامران سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ ان کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

مزید خبریں