جمعہ, جون 6, 2025
اشتہار

رائے: پاکستان کا شمسی توانائی کا سفر صارفین کے درمیان لاگت کی منتقلی سے متاثر ہو رہا ہے

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان نے 2015 میں خاموشی سے توانائی کے غیر مرکزی نظام کا ایک نیا دور شروع کیا۔ “نیٹ میٹرنگ ضوابط” کے نام سے منظور ہونے والے قانون کے تحت گھروں اور کاروباری اداروں کو اجازت دی گئی کہ وہ شمسی پینل لگا کر اضافی بجلی قومی گِرڈ کو واپس بیچ سکیں، اور جتنی قیمت پر وہ بجلی خریدتے تھے اتنی ہی قیمت پر فروخت بھی کر سکیں۔ یہ ایک جرآٔت مندانہ قدم تھا ایک ایسے ملک میں جو بجلی کی قلت، بڑھتے ہوئے درآمدی اخراجات، مہنگی اور ناقابل بھروسہ بجلی کے باعث عوامی بے چینی کا شکار تھا۔

اِس قانون کا فوری اثر ہوا۔ گرتی ہوئی سولر پینل کی قیمتوں اور جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ بجلی کے خوردہ نرخوں کے باعث، پاکستان میں شمسی توانائی کے استعمال میں تیزی آئی۔ صرف سال 2024 میں، 22 گیگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کئے گئے جو ایک حیران کن عدد ہے، خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پاکستان کی مجموعی نصب شدہ پیداواری صلاحیت 46 گیگا واٹ ہے۔ تاہم، اِس کامیابی کے پسِ منظر میں ایک خاموش اضطراب پوشیدہ ہے: ”پھنسے ہوئے اخراجات” کا بنیادی مسئلہ۔

بجلی کے استعمال کے موجودہ طریقے اور یوٹیلٹیز (بنیادی سہولیات جیسے بجلی) کے اخراجات وصول کرنے کے نظام کے درمیان ایک بڑھتا ہوا معاشی عدم توازن پیدا ہو رہا ہے۔ پاکستان میں یوٹیلٹیز نے ہمیشہ حجم پر مبنی نرخوں پر انحصار کیا ہے — یعنی ہر فروخت ہونے والی کلو واٹ گھنٹہ بجلی کے بدلے چارج کرنا — تاکہ وہ نہ صرف توانائی بلکہ بنیادی ڈھانچے (جیسے کھمبوں، تاروں، سب سٹیشنز اور انتظامی اخراجات) کی قیمت بھی وصول کر سکیں۔ لیکن جیسے جیسے زیادہ صارفین شمسی توانائی کو اپنانے لگے ہیں اور اپنی کچھ بجلی خود پیدا کرنے لگے ہیں، یوٹیلٹی کی جانب سے فروخت کی جانے والی بجلی (کلو واٹ گھنٹوں کی صورت میں) کم ہوتی جا رہی ہے۔

یہ صورتِ حال گِرڈ کو چلانے کے اصل اخراجات کو کم نہیں کرتی۔ اس کے برعکس، مستقل اخراجات اب کم تعداد میں صارفین پر تقسیم ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں باقی تمام صارفین کے لئے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ بڑھتے ہوئے نرخ منقسم توانائی) لوگوں کا اپنی بجلی خود پیدا کرنا( کو مالی لحاظ سے مزید پرکشش بنا دیتے ہیں، خاص طور پر تجارتی و صنعتی صارفین کے لئے، جو یوٹیلٹی آمدنی کا بڑا حصہ فراہم کرتے ہیں۔ جب بڑے صارفین گِرڈ سے ملنے والی بجلی پر اپنا انحصار کم کرتے ہیں، تو یوٹیلٹی ادارے “پھنسے ہوئے اثاثوں” کے مسئلے سے دوچار ہو جاتے ہیں — یعنی ایسا انفراسٹرکچر جو زیادہ طلب کے اندازے پر بنایا گیا تھا، مگر اب اس کی لاگت وصول ہونے کا کوئی واضح راستہ باقی نہیں رہا۔

تاہم، یوٹیلٹی اداروں پر مالی دباؤ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ پاکستان میں بجلی کی فراہمی کا نظام ایک خریدار پر مشتمل مارکیٹ پر قائم ہے، جہاں سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (CPPA-G) بجلی پیدا کرنے والوں سے معاہدے کرتی ہے، اور ریاستی تقسیم کار کمپنیاں (DISCOs) صارفین کو بجلی فروخت کرنے، بل وصول کرنے اور چوری روکنے کی پابند ہوتی ہیں۔ جب خوشحال صارفین شمسی توانائی اپنا کر گرڈ پر انحصار کم کرتے ہیں، تو ریاستی تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کی آمدن گھٹنے لگتی ہے اور نقصان میں اضافہ ہوتا ہے۔ فروخت کی مقدار کم ہو جاتی ہے، مگر اخراجات جوں کے توں رہتے ہیں یا بڑھ جاتے ہیں، اور باقی صارفین پر نرخوں کا بوجھ بڑھا دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مزید صارفین کے جانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یہ ایک فیڈ بیک لوپ پیدا کرتا ہے جسے “یوٹیلٹی کی موت کا چکّر (یوٹیلیٹی ڈيتھ لوپ” کہا جاتا ہے۔

بجلی کے زیادہ تقسیمی نقصانات، کم بل کی وصولی اور درآمدی ایندھن پر بھاری انحصار کے باعث یہ سرکاری تقسیم کار کمپنیاں مشکل میں گرفتار ہیں۔ وہ مالی خسارے کو روک نہیں پا رہیں اور سیاسی وجوہات کی بنا پر بجلی کے نرخ اتنے بڑھا نہیں سکتیں کہ اپنے نقصان پورے کر سکیں۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں، بلکہ جنوبی افریقہ میں بھی ایسی ہی صورتحال سامنے آ رہی ہے۔

نیٹ میٹرنگ سے نیٹ بلنگ تک
پاکستان کی نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے نیٹ بلنگ کا نظام اپنانے کی سفارش کی ہے۔ یہ تجویز پہلے ہی اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی سے منظوری پا چکی ہے اور اب کابینہ کی منظوری کی منتظر ہے۔ اگر یہ تجویز حتمی طور پر منظور ہو گئی تو نیپرا باقاعدہ طور پر اس تبدیلی کو ریگولیٹری فریم ورک (قواعد و ضوابط) میں شامل کر دے گا، جس سے پاکستان کا تقریباً دس سال پرانا نیٹ میٹرنگ نظام ختم ہو سکتا ہے۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا کی نیٹ انرجی میٹرنگ 3.0 (Nem) پالیسی کی مانند، یہ نظام سولر صارفین کو ریٹیل (خوردہ) نرخوں کی بجائے یوٹیلٹی کی بچت شدہ لاگت کے مطابق ادائیگی کرتا ہے (یعنی وہ رقم جو یوٹیلٹی بجلی بنانے یا خریدنے پر خرچ کرتی) جو عموماً ریٹیل نرخوں سے کافی کم ہوتی ہے۔

نیپرا کی نئی تجویز کے تحت، گِرڈ کو زائد بجلی فراہم کرنے والے صارفین کو اس بجلی کی اصل قیمت کے قریب معاوضہ دیا جائے گا، جو نظام کے لئے حقیقی قیمت کی عکاسی کرے گا۔ اِن صارفین کو پاکستان میں یہ قیمت عام طور پر فی کلو واٹ گھنٹہ کے حساب سے ادا کی جاتی ہے، جب کہ ملک کے کئی حصوں میں ریٹیل نرخ 27 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ سے زیادہ ہیں۔ نظریاتی طور پر، اس سے نظام میں زیادہ منصفانہ طریقہ کار آئے گا کیونکہ یہ غیر شمسی صارفین پر پڑنے والے اضافی بوجھ (گِرڈ کے مستقل اِخراجات کا بوجھ) کو کم کرے گا اور یوٹیلٹی اداروں کو مالی طور پر مستحکم رکھے گا۔

لیکن اس سے شمسی توانائی کی معاشیات بھی بدل جاتی ہے۔ نئے صارفین کے لئے بغیر اسٹوریج کے روف ٹاپ سولر سسٹم کی ادائیگی کا وقت 1 سے 2 سالوں سے بڑھ کر 4 سے 5 سال ہو جاتا ہے۔ اگرچہ یہ قدم گِرڈ کو مستحکم کرے گا اور غیر شمسی صارفین کا تحفظ کرے گا، لیکن اس سے نئی تنصیبات کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔ سوائے اس کے کہ یہ جدید کاروباری ماڈلز کے ساتھ جوڑے جائیں، جیسے کہ سولر پلس اسٹوریج (جو صارفین کو چوٹی کے اوقات میں مہنگی بجلی خریدنے سے بچاتا ہے) یا پیر ٹو پیر انرجی ٹریڈنگ (جس سے وہ اضافی بجلی براہِ راست دوسروں کو بیچ سکتے ہیں)۔

کیلیفورنیا کے تجربے سے ایک اہم سبق ملتا ہے۔ 2023 میں نیٹ بلنگ کے نظام پر منتقلی کے بعد خالص روف ٹاپ سولر کی تنصیبات میں کمی آئی۔ تاہم، بیٹری کے استعمال میں اضافہ ہوا کیونکہ صارفین مہنگے چوٹی کے اوقات (بجلی کی زیادہ مانگ کا دورانیہ) میں استعمال کے لئے توانائی ذخیرہ کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی رجحان دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ خالص روف ٹاپ فوٹو وولٹک نظام کی تنصیبات سست پڑ جائیں گی، لیکن شمسی توانائی کے ساتھ لیتھیئم آئن بیٹریوں اور سمارٹ انورٹرز کے امتزاج پر مبنی خود کفالت کے حل میں دلچسپی بڑھے گی۔

بڑا مسئلہ حل کرنا: غیر مؤثر تقسیم
تاہم، صرف نیٹ بلنگ سے پاکستان کے توانائی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں جو صارفین کو سولر کی طرف لے جا رہی ہیں، اِن کی جڑیں گہرے بنیادی مسائل میں ہیں: نظام کے چلانے میں خامیاں، مہنگے ایندھن کے معاہدے، بڑھتا ہوا گردشی قرضہ، اور کمزور انتظامیہ۔

اگرچہ نیپرا منقسم توانائی (لوگوں کا اپنی بجلی خود پیدا کرنا) کے لئے ضوابط میں تبدیلیاں کر رہا ہے، سرکاری تقسیم کار کمپنیوں کو فوری طور پر تکنیکی نقصانات کو کم کرنا، میٹرنگ اور بلنگ کے نظام کو جدید بنانا، بجلی کی خریداری کو بہتر بنانا اور جوابدہ ہونا چاہیے۔ جب تک بجلی کی اصل لاگت کم نہیں ہوتی، صارفین گِرڈ کی بجلی سے ہٹ کر متبادل تلاش کرتے رہیں گے، چاہے جس طرح بھی اُن کی تلافی کی جائے۔ یہ ایک گہری حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے: پاکستان میں لوگ گِرڈ سے انحراف کر کے شمسی توانائی کی طرف اس لئے نہیں جا رہے کہ وہ صاف توانائی چاہتے ہیں بلکہ وہ درحقیقت خود کو مہنگی بجلی سے بچانا چاہتے ہیں تاکہ اُن پہ مالی بوجھ کم ہو سکے۔

مستقبل کی ایک جھلک: بیٹریاں اور ایک زیادہ بہتر گِرڈ
اگرچہ پاکستان نیٹ بلنگ کی طرف بڑھ رہا ہے، مگر اِس کی شمسی توانائی کا سفر ختم ہونے والا نہیں ہے۔ بجلی ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجیز، خاص طور پر لیتھیم آئن بیٹریاں، زیادہ سستی اور قابل رسائی ہوتی جا رہی ہیں۔ جیسے جیسے بیٹریوں کی قیمتیں کم ہوتی جائیں گی، زیادہ تر سولر صارفین شام کے وقت خود استعمال کے لئے توانائی ذخیرہ کریں گے۔

بیٹری اسٹوریج کے ساتھ چھتوں پر لگے سولر سسٹم گِرڈ کی لچک میں نمایاں اضافہ کر سکتے ہیں کیونکہ یہ چوٹی کے اوقات اور بجلی کی بندش کے دوران گِرڈ پر انحصار کم کر دیتے ہیں۔ دن کے وقت زائد شمسی توانائی ذخیرہ کر کے شام کو استعمال کرنے سے، جب پاکستان کا گِرڈ سب سے زیادہ دباؤ میں ہوتا ہے، یہ سولر سسٹم چوٹی کی طلب (بجلی کی زیادہ طلب) کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں اور چوٹی کے اوقات میں مہنگے پاور پلانٹس چلانے کی ضرورت کو گھٹا دیتے ہیں جو عام طور پر درآمدی ایندھن پر چلتے ہیں۔

یہ تبدیلی نہ صرف قومی ایندھن کے خرچ کو کم کرتی ہے بلکہ بجلی کے نئے ترسیلی اور تقسیمی ڈھانچے کی فوری ضرورت کو بھی مؤخر کر دیتی ہے، یوں ایک ایسے گرڈ پر دباؤ کم ہوتا ہے جو پہلے ہی نقصانات اور محدود صلاحیتوں کا شکار ہے۔ یوں، سولر اور بیٹری پر مبنی یہ منقسم توانائی کا نظام ایک غیر مرکزی سہارا بنتا ہے، جو بجلی کی زیادہ مانگ کے اوقات میں گِرڈ کو طاقت دیتا ہے اور صارفین کو بااختیار بناتا ہے۔

اِن رجحانات سے آگے رہنے کے لئے، پاکستان کے توانائی کے منصوبہ سازوں کو مختصر مدتی اِصلاحات سے آگے دیکھنا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ‘ڈیمانڈ رسپانس’ نظام، ذہین گِرڈز اور ایسے ٹیرف ڈیزائنز میں حکمت عملی کے تحت سرمایہ کاری کریں جو بجلی کی حقیقی قیمت کی عکاسی کرے، یعنی جو استعمال کے وقت اور مقام کے حساب سے مختلف ہو۔

ایک زیادہ ذہین اور فوری ردعمل دینے والا گِرڈ صارفین کو بااختیار بنائے گا، کیونکہ اس سے گھروں اور کاروباروں کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنے توانائی کے استعمال کو وقت کی صورتحال کے مطابق ڈھال سکیں۔ اس سے بجلی کے سسٹم پر دباؤ کم ہوگا اور صارفین کو اپنے استعمال پر زیادہ کنٹرول حاصل ہوگا۔

(سعدیہ قیوم کی یہ تحریر ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس یہاں پڑھا جاسکتا ہے)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں