جمعرات, مئی 29, 2025
اشتہار

شاہد احمد دہلوی: صاحبِ‌ طرز ادیب

اشتہار

حیرت انگیز

شاہد احمد دہلوی کی نثر میں جو دل کشی اور شگفتگی ہے وہ انھیں صاحبِ‌ طرز ادیب ثابت کرتی ہے۔ ان کی عبارت میں انگریزی، فارسی اور عربی کے ثقیل الفاظ اور بھاری بھرکم تراکیب نہیں‌ بلکہ رواں اور سبک جملے، محاورے اور ایسے الفاظ پڑھنے کو ملتے ہیں جو نثر کو زندہ اور جیتا جاگتا بنا دیتے ہیں۔ الفاظ کے ذریعے خیال و احساس کو مجسم صورت میں‌ قاری کے سامنے پیش کرنا گویا ان کا کمال تھا۔

شاہد احمد دہلوی نے خاکہ نگاری، تذکرہ نویسی اور تراجم کے ساتھ ادبی صحافت میں بھی نام پیدا کیا۔ وہ ماہرِ فنِ موسیقی بھی تھے اور اس موضوع پر کتاب بھی تحریر کی۔ 27 مئی 1967ء کو شاہد احمد دہلوی وفات پا گئے تھے۔ ان کی کئی کتابیں آج بھی ان کی یاد دلاتی ہیں اور لائقِ مطالعہ ہیں۔ دہلی کی با محاورہ زبان اور اس کا چٹخارہ شاہد احمد دہلوی کے اسلوب کا خاصّہ ہے۔

شاہد احمد دہلوی کا تعلق دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ ایسا گھرانا جس نے اردو ادب کو بے مثال اور یادگار نگارشات دیں۔ شاہد دہلوی اردو کے نام وَر ادیب اور مشہور ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے تھے۔ ان کے والد مولوی بشیر الدین احمد بھی اپنے وقت کی علمی اور ادبی شخصیت تھے اور ادیب کی حیثیت سے پہچانے گئے۔ شاہد احمد دہلوی 1906ء میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے جس علمی و ادبی ماحول میں‌ ان کی پرورش ہوئی، اس نے شاہد احمد دہلوی کو بھی لکھنے لکھانے پر آمادہ کیا۔ موسیقی ان کا عشق تھا اور لکھنا پڑھنا بہترین مشغلہ۔

اردو زبان کے مشہور ادبی مجلّہ ’’ساقی‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے شاہد احمد دہلوی نے خوب جم کر ادبی صحافت کی اور کئی خاص نمبر شایع کیے۔ دہلی کی خوب صورت نثر اور وہاں کی زبان پر ان کی جو گرفت تھی اس میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔ ان کی دو کتابیں ’’دہلی کی بپتا‘‘ اور ’’اجڑا دیار‘‘ اس اسلوب میں ان کی انفرادیت کی مثال ہیں۔ شاہد احمد دہلوی جہاں اردو کے ایک فقید المثال ادیب مشہور ہیں، وہیں کلاسیکی موسیقی کے ایک جید عالم اور عامل بھی تھے۔ انہیں بچپن ہی سے موسیقی سے لگاؤ تھا۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے کلاسیکی موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔ ان کے پہلے استاد پنڈت لکشمن پرشاد تھے۔ ان کے بعد برصغیر کے مشہور سارنگی نواز استاد بندو خاں کے برادر نسبتی استاد چاند خاں دہلوی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ 1937ء میں شاہد احمد دہلوی نے ایس۔ احمد کے نام سے کلاسیکی گائیک کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو دہلی کے پروگراموں میں حصہ لینا شروع کیا اور 1947ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

شاہد احمد دہلوی نے رسالہ ’’ساقی‘‘ 1930ء میں دہلی سے جاری کیا تھا جسے 1947ء میں ہجرت کے پاکستان سے نکالا۔ 1959ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ بنی تو شاہد احمد دہلوی کی کوششیں بھی اس میں شامل تھیں۔ وہ ترقّی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور خوب کام کیا۔ انھوں نے انگریزی کی متعدد کتب اردو زبان میں منتقل کیں۔ ان کے تراجم میں کہانیاں اور بچّوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق کتب اور کئی علمی و ادبی مضامین شامل ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی میں ان کا تعلق ریڈیو پاکستان سے قائم ہوا، جہاں ایس احمد کے نام سے موسیقی کے پروگرام پیش کرنے لگے۔ موسیقی کے مضامین کا ایک مجموعہ’’ مضامینِ موسیقی‘‘ کے نام سے شایع کروایا۔ شاہد صاحب نے اپنے دور کے کئی مشاہیر کو قریب سے دیکھا اور ان کے ساتھ وقت گزارا۔ اپنے تجربات اور مشاہدات کو انھوں نے شخصی خاکوں کی شکل دی تو ایک مجموعہ ’’گنجینۂ گوہر‘‘ کے نام سے 1962ء میں شایع ہوسکا۔ اس کے بعد ’’بزمِ خوش نفساں‘‘ اور ’’طاقِ نسیاں‘‘ شایع ہوئے مگر یہ ان کی وفات کے بعد شایع کروائی گئیں۔ ’’دِلّی جو ایک شہر تھا‘‘ اور ’’چند ادبی شخصیتیں‘‘ شاہد دہلوی کی دو اہم کتابیں ہیں۔

شاہد احمد دہلوی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں