موت کا وقت نہ ہو تو کوئی کسی کا بال بیکا نہیں کر سکتا جاپان میں 1945 میں ہونے والے دو ایٹمی حملوں میں ایک شخص معجزانہ طور پر محفوظ رہا۔
جسے اللہ رکھے اس کو کون چکھے۔ موت کا وقت متعین ہے، اگر وقت نہ آیا ہو تو موت سامنے آکر بھی واپس لوٹ جاتی ہے۔ یہ بات صادق آتی ہے جاپان میں 1945 میں امریکی کی جانب سے پھینکے گئے دو ایٹم بم حملوں میں بچ جانے والے واحد جاپانی شخص پر۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق تسوتومو یاماگوچی وہ خوش نصیب ہے جو اگرچہ اب اس دنیا میں نہیں رہے اور 4 جنوری 2010 کو 93 برس کی عمر میں طبی موت کے باعث اس دنیا سے چل بسے لیکن 1945 میں جب امریکا نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم پھینکے تھے تو ان دونوں حملوں میں بچ جانے والے یہ واحد جاپانی شہری تھے، جنہیں حکومت جاپان نے دونوں ایٹمی حملوں میں "سرکاری طور پر زندہ بچ جانے والا” تسلیم کیا تھا۔
تسوتومو یاماگوچی کی امریکی ایٹمی حملوں کے وقت عمر 28 برس تھی۔ وہ متسوبوشی کمپنی ناگاساکی میں میں انجینئر تھا۔ وہ 6 اگست 1945 کو ایک بزنس ٹرپ پر ہیروشیما آیا ہوا تھا کہ اس دن امریکا نے پہلا ایٹم بم ’’لٹل بوائے‘‘ ہیروشیما پر گرایا۔
تسوتومو ایٹم بم گرنے کے مقام سے تقریباً 3 کلومیٹر دور تھا۔ تاہم بم کے مضر اثرات سے اس کے جسم کی جلد جلی اور سماعت متاثر ہوئی تاہم خوش قسمتی سے وہ زندہ بچ گیا۔
مذکورہ خوش قسمت کا زندگی نے ایک اور تلخ امتحان لینا تھا۔ ہوا یہ کہ تسوتومو شدید زخمی ہونے کے باوجود اس ایٹمی حملے کے دوسرے روز اپنے آبائی شہر ناگاساکی واپس چلا گیا۔
9 اگست 1945 کو امریکا نے دوسرا ایٹم بم جس کو ’’فیٹ مین‘‘ نام دیا گیا تھا، ناگاساکی پر گرا دیا۔ جس وقت ایٹم بم گرایا گیا تو تسوتومو اپنے دفتر میں ایک میٹنگ میں موجود تھا۔ تاہم خوش قسمتی سے اس بار بھی وہ زخمی ہوا اور جان بچ گئی۔
2009 میں جاپانی حکومت نے انہیں "nijū hibakusha” یعنی (دو بار ایٹمی حملے میں بچنے والا) کا درجہ دیا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں جوہری ہتھیاروں کے خلاف مہم بھی چلائی۔