سپریم کورٹ نے سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے متعلق اپیلوں پر اقلیتی نوٹ جاری کردیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم اختر نے 36 صفحات پر مشتمل اقلیتی نوٹ جاری کیا ہے جس میں سویلینز ٹرائل کیس میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر 2 اختلافی ججز نے تفصیلی وجوہات جاری کیں۔
جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا، 5 ججز کے اکثریتی فیصلے میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کو درست قرار دیا گیا تھا۔
اقلیتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کہنا کہ دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں درست نہیں ہے، یہ درست ہے کہ عام فوجداری عدالتوں میں سزا کی شرح کم ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان عدالتوں میں انصاف کی صلاحیت یا خواہش نہیں۔
نوٹ کے مطابق سپریم کورٹ مستقل طور پر نچلی عدالتوں کے فیصلوں کا عدالتی جائزہ لے رہی ہے، عدالتی مشاہدے میں آیا زیادہ تر بریت کے فیصلے بے بنیاد سیاسی مقدمات آتے ہیں، ایسے فیصلے غیر پیشہ ورانہ تفتیش اور کمزور پراسیکیوشن کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
اقلیتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عام عدالتی نظام کے برابر نہیں سمجھا جاسکتا، عام عدالتوں کے افسران عدالتی تجربے کے ساتھ آزادی کے حامل ہوتے ہیں، وفاق صوبائی حکومتیں دہشت گردی مقدمات سمجھنے کے بجائے فوجی عدالتوں پر انحصار کررہی ہیں۔
عام فوجی عدالتوں سے یہ توقع رکھنا کہ بغیر ثبوت افراد کو مجرم ٹھہرائیں تو منصفانہ ٹرائل کی خلاف ورزی ہوگی، انٹرا کورٹ اپیلیں وفاق، پنجاب بلوچستان حکومت کی طرف سے دائر کی گئیں، ایسا معلوم ہوتا ہے بدقسمتی سے ان حکومتوں کو فوجداری عدالتوں پر اعتماد نہیں رہا، افسوس ہے ان منتخب حکومتوں نے فوجداری عدالتوں پر اعتماد ختم کردیا ہے۔
اقلیتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ان حکومتوں نے غیر سنجیدہ سیاسی نوعیت کے کیسز کے حل کا بوجھ فوجی عدالتوں پر ڈال دیا، فوجی افسران جو فوجی عدالتوں کی صدارت کرتے ہیں وہ فوجی معاملات میں مہارت رکھتے ہیں، ایسے افسران کے پاس عدالتی تجربہ نہیں ہوتا اور نہ دیوانی مقدمات سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔