اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں ورچوئل اثاثہ جات غیر قانونی نہیں ہیں، 7 سال قبل بینکوں کو وی ایز سے لین دین سے روکنے کی وجہ قانونی فریم ورک کا نہ ہونا تھا۔
اس حوالے سے اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے 14ویں اجلاس سے متعلق خبروں کے حوالے سے یہ واضح کیا جاتا ہے کہ بینک دولتِ پاکستان نے 2018ء میں اپنے زیرِ ضابطہ کاری اداروں، بشمول بینکوں، ترقیاتی مالی اداروں، مائیکرو فنانس بینکوں، الیکٹرانک منی انسٹی ٹیوشنز، پیمنٹ سسٹم آپریٹرز، پیمنٹ سروس پرووائڈرز اور ایکسچینج کمپنیوں کو ورچوئل اثاثہ جات کے لین دین سے گریز کی ہدایت کی تھی۔
یہ ہدایت اس لیے نہیں دی گئی تھی کہ ورچوئل اثاثہ جات کو ملک میں غیر قانونی قرار دیا گیا تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان اثاثہ جات کے لیے کوئی قانونی یا ضوابطی فریم ورک موجود نہیں تھا۔
یہ اقدام اسٹیٹ بینک کے زیرِ ضابطہ اداروں اور ان کے صارفین کو ان خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا تھا جو ورچوئل اثاثہ جات کے لیے قانونی اور ضوابطی فریم ورک کی عدم موجودگی کے باعث پیدا ہو سکتے تھے۔
اسٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ اس وقت وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کردہ پاکستان کرپٹو کونسل کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پاکستان میں کرپٹو کونسل وی ایز کے لیے ضوابط پر مبنی نظام تیار کر رہے ہیں، ضابطہ جاتی فریم ورک سے سرمایہ کاروں کو قانونی تحفظ ملے گا۔
اسٹیٹ بینک نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک کے تحت کام کرنے والے ادارے وی ایز کی لین دین نہیں کر سکتے، کرپٹو اثاثہ جات کے لیے پاکستان میں پالیسی سازی کا عمل جاری ہے۔
مزید پڑھیں : کرنسی نوٹوں پر پابندی ، اسٹیٹ بینک کا اہم بیان آگیا
یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور واٹس ایپ گروپس میں زیر گردش خبروں کو مسترد کردیا ہے کہ قلم سے کوئی بھی تحریر لکھے نوٹوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں کہ یکم جولائی 2025 سے قلم کے نشانات یا ہاتھ سے لکھے ہوئے کرنسی نوٹوں قابل قبول نہیں ہوں گے ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے۔