ہندوستان کی تاریخ میں بہت کم ایسی شخصیات گزری ہیں جنھوں نے نثر اور نظم نگاری کے ساتھ ساتھ صحافت کے میدان میں بھی اپنے نام کا سکہ جمایا۔ مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر کے نام تو سرفہرست ہیں ہی، لیکن چراغ حسن حسرت بھی انہی خصوصیات کے حامل تھے۔ آج حسرت کی برسی منائی جا رہی ہے۔
چراغ حسن حسرت جیّد صحافی اور عمدہ شاعر بھی تھے۔ مزاحیہ کالم نگاری میں ان کا مقام قابل رشک ہے۔ بدقسمتی سے آج حسرت کے فن و شخصیت کا تذکرہ کم ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کتب بینی اور مطالعہ کا رجحان کم ہوجانا ہی نہیں بلکہ نئی نسل کی دل چسپی ادب اور ادبی مضامین میں نہ ہونا بھی ہے۔ اردو کتابیں اور اخبار پڑھنے والے پرانے لوگ حسرت کے نام اور ان کی تحریروں سے خوب واقف ہیں جو اب ایک ایک کر کے اٹھتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر حسرت کے کالم لوگ بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ 26 جون 1955ء کو چراغ حسن حسرت لاہور میں وفات پا گئے تھے۔
حسرت نے کئی ماہ ناموں اور یومیہ بنیاد پر شایع ہونے والے مؤقر اخبارات کی ادارت کی اور مضامین بھی لکھے۔ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، اور فوج میں ملازمت کی وجہ سے اکثر ساتھی ان کو میجر حسرت بھی کہا کرتے تھے۔
چراغ حسن حسرت 1904 ء میں بارہ مولا کشمیر میں پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی میں شاعری کی طرف مائل ہوئے اور لکھنے لکھانے کا شوق وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ میٹرک کرنے کے بعد وہ پاکستان آ گئے۔ اپنے کیریئر کا آغاز مختلف اسکولوں میں اردو اور فارسی پڑھانے سے کیا۔ اور پھر صحافت سے منسلک ہوگئے۔ اپنے دور کے کئی روزناموں میں ادارت کے ساتھ قلمی ناموں سے کالم بھی شایع کروانے لگے۔ ان میں ’’کولمبس، کوچہ گرد اور سند باد جہازی‘‘ کے نام سے ان کے کالم اور تبصرے بھی بہت پسند کیے گئے۔ کلکتہ میں اپنا قلمی سفر شروع کرنے کے بعد 1920ء میں وہ شملہ کے ایک اسکول میں فارسی کے استاد مقرر ہوئے جہاں مولانا ابوالکلام آزاد سے ملاقات ہوئی اور ان کا حسرت کے ذہن اور قلم پر بہت اثر نظر آتا ہے۔ کئی اخبارات میں کام کرنے کے بعد مولانا ظفر علی خان کی دعوت پر حسرت صاحب لاہور آگئے اور ان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ ہندوستان میں ان کا قلم اپنا زور دکھا کر کئی مداح بنا چکا تھا جن میں مشاہیر بھی شامل تھے۔ بعد میں لاہور آکر بھی انھیں کئی نابغۂ روزگار شخصیات کی رفاقت نصیب ہوئی جنھوں نے حسرت کو بہت سراہا۔
چراغ حسن حسرتؔ کا شمار بیسویں صدی کے ان مشاہیر میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی علمی و ادبی شخصیت سے اپنے دور میں ادب اور صحافت کے شعبہ پر گہرا اثر چھوڑا۔ شاعری پر وہ توجہ بہت کم دے سکے مگر اردو نثر میں ایسے اسلوب کو متعارف کرایا جسے سبھی نے سراہا ہے۔ چراغ حسن حسرتؔ کی نثر کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں: ’’وہ نثر کی ہر صنف پر قادر تھے، سیرت بھی لکھی، افسانے بھی تحریر کیے، تاریخ پر بھی قلم اٹھایا۔ بچوں کا نصاب بھی لکھا۔‘‘
حسرتؔ کی نثر میں متین و سنجیدہ، خالص ادبی و رومانی اور مزاحیہ تحریریں سبھی شامل ہیں۔ فکاہیہ مضامین کے علاوہ خاکہ نویسی، تراجم، تنقیدی تبصرے اور مضامین بھی حسرت کے قلم سے نکلے۔ ان کی تخلیقات پر مشتمل کتابیں اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔