برِصغیر میں مسلمانوں کی بادشاہت کے علاوہ مختلف چھوٹی بڑی ریاستوں اور علاقوں میں بہت سے ہندو راجا اور حاکم بھی ہو گزرے، لیکن سکھ مذہب کے پیروکاروں میں صرف رنجیت سنگھ ہی تھا جس نے اپنی حکومت قائم کی اور پنجاب پر راج کیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کا دور ہندوستان کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔
27 جون 1839ء کو رنجیت سنگھ چل بسا تھا جس کے بعد اگلے دس برس ہی سکھوں کا اقتدار برقرار رہ سکا۔ کہتے ہیں کہ اس وقت پورے پنجاب میں سکھوں کی بارہ مثلیں (ایک لحاظ سے خود مختار ریاستیں) تھیں جو ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھیں۔ ان میں سے ایک مثل گوجرانوالہ کے قریب آباد تھی۔ رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780ء کو اسی سکرچکیا مثل کے سردار مہان سنگھ کے گھر پیدا ہوا۔ اس کا نام بدھ سنگھ رکھا گیا جو آگے چل کر رنجیت سنگھ کے نام سے مشہور ہوا اور سکھ سلطنت قائم کی۔ رنجیت سنگھ کا دور 40 سال پر محیط ہے جس میں وہ فتوحات کے بعد کشمیر سے موجودہ خیبر پختونخوا اور جنوب میں سندھ کی حدود تک اپنی سلطنت کو پھیلا چکا تھا۔ 19 سالہ رنجیت سنگھ نے 1799ء میں لاہور کو فتح کر کے اس شہر کو اپنا پایۂ تخت بنایا تھا۔
رنجیت سنگھ کی دلیری اور بہادری کے ساتھ مؤرخین نے اس کی طرزِ حکم رانی کو بھی شان دار قرار دیا ہے۔ رنجیت سنگھ کو شیرِ پنجاب بھی لکھا گیا ہے۔ مہاراجا نے سکھوں کی ایک منظم فوج تیار کی تھی جسے خالصہ فوج کہا جاتا تھا۔ اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے چند کلومیٹر دور شالا مار باغ کے قریب تھا، جسے ”بدھو کا آوا‘‘ کہتے تھے۔ یہ 1811ء کی بات ہے اور 1839ء تک یہ سپاہ چالیس ہزار جوانوں پر مشتمل تھی۔ اگرچہ رنجیت سنگھ کے دربار میں ہندو اور مسلمان بھی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر منصب و مقام پر فائز رہے، لیکن بعض مؤرخین نے اقلیتوں کے لیے مشکلات کا ذکر بھی کیا ہے۔ برصغیر میں بدقسمتی سے کئی بادشاہوں کو قوم و ملّت اور مذہب کی بنیاد پر مطعون بھی کیا گیا اور تعصب کی وجہ سے کئی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ ان میں کسی ایک نسل اور مذہب کے ماننے والے شامل نہیں بلکہ جہاں جس کا زور چلا اس نے کوئی بات کسی سے منسوب کردی رنجیت سنگھ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے باوجود مؤرخین کی اکثریت متفق ہے کہ مہاراجا کے دربار میں کسی کو رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز حاصل نہ تھا بلکہ مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی فضا برقرار رکھی گئی تھی۔
رنجیت سنگھ کی ایک آنکھ ضایع ہوچکی تھی اور وہ کانا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک بار مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے وزیر خارجہ فقیر عزیز الدین سے کہا ‘رب چاہتا ہے کہ میں ہر مذہب کو ایک نظر سے دیکھوں اس لیے رب نے مجھے صرف ایک آنکھ ہی دی ہے۔ ‘ یہ واقعہ کرتار سنگھ دوگل کی کتاب ‘ رنجیت سنگھ ، دی لاسٹ ٹو لے آرم’ (Maharaja Ranjit Singh: The Last to Lay Arms) میں درج ہے۔ فقیر عزیز الدین کی طرح کئی اور مسلمان مہاراجہ رنجیت کے دربار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے جنھیں ان کے مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے ان عہدوں پر فائز کیا گیا تھا۔
مہاراجہ رنجیت کا عقیدہ گروہ گرنتھ صاحب پر تھا اور وہ ایک پکا سکھ تھا، اس کے باوجود مہاراجہ رنجیت سنگھ کا رحجان کسی ایک مذہب کی طرف نہیں دیکھا گیا۔
انگریز مؤرخ سر لیپل گرفن کے علاوہ کنہیا لال ہندی، نور احمد چشتی، ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر اور بعد میں پتونت سنگھ، فقیر وحید الدّین و دیگر نے بھی رنجیت سنگھ کے دور حکومت پر تحقیقی مضامین سپردِ قلم کیے اور ان کی کتابیں رنجیت سنگھ کی ذاتی زندگی اور اس کے عہد کی لفظی تصویریں پیش کرتی ہیں۔
رنجیت سنگھ نے کئی شادیاں کی تھیں۔ اس کی بیویوں میں ہندو، سکھ اور مسلمان عورتیں شامل تھیں۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ بیس بیویوں کے علاوہ رنجیت سنگھ کی کئی داشتائیں بھی تھیں۔ محققین کے مطابق رنجیت سنگھ حسن و شباب کا رسیا تھا۔ اس کے ساتھ وہ اپنی سلطنت کو استحکام اور دوام بخشنے کے لیے چھوٹی بڑی ریاستوں میں رشتے بھی کرتا رہا۔
مؤرخین کے مطابق اس نے سات مسلمان لڑکیوں سے شادی کی اور ان میں سے ایک امرتسر کی مسلمان رقاصہ موراں تھی جسے سب سے زیادہ شہرت ملی۔ رنجیت سنگھ نے 1802ء میں موراں سے شادی کی اور موراں اس کی پسندیدہ رانی تھی۔ فقیر وحید الدّین کے مطابق موراں سے شادی کرنے کے لیے رنجیت سنگھ نے رقاصہ کے والد کی کئی شرائط قبول کیں۔ مشہور ہے کہ ان میں ایک شرط یہ تھی کہ مہاراجا کو موراں کے گھر آکر وہاں پھونکوں سے آگ جلا کر دکھانا ہوگی اور یہ شرط بھی مہاراجا نے پوری کی۔
مہاراجا کی موراں سے چاہت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے موراں کے کہنے پر کئی فلاحی کام کیے، مساجد و باغ اور یادگاریں تعمیر کروائیں اور اس دور کی ایک مسجد آج بھی اندرونِ لاہور میں موجود ہے۔ موراں خود بھی ایک سخی اور مہربان عورت مشہور ہوئی۔ مشہور ہے کہ وہ اپنی سلطنت میں لوگوں کی مدد کرتی اور ان کے مسائل حل کرواتی تھی۔ اسی سبب عام لوگوں نے اسے موراں سرکار کہنا شروع کردیا تھا۔ موراں سے اپنی چاہت جتاتے اور محبت نبھاتے ہوئے رنجیت سنگھ گل بہار بیگم پر فریفتہ ہوگیا۔ وہ بھی ایک مشہور رقاصہ تھی اور مشہور ہے کہ گل بہار بیگم سے شادی کے لیے رنجیت سنگھ نے اپنے ہاتھوں پر مہندی بھی لگوائی تھی۔ لاہور میں ایک کوچہ، ایک رہائشی علاقہ اور ایک باغ گل بہار بیگم سے موسوم ہیں۔
مصنّف آروی اسمتھ کے مطابق مہاراجہ رنجیت سنگھ زندگی کے آخری برسوں میں بڑھتی عمر، اپنی بیویوں کے مابین چپقلش اور ہر وقت کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تنگ آچکا تھا اور افیون کا عادی ہوگیا تھا۔ شراب نوشی کی کثرت اور فالج رنجیت سنگھ کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ اس وقت ان مذاہب میں عورتیں اپنے شوہر کے ساتھ ہی ستی ہوجاتی تھیں اور رنجیت سنگھ کی چار ہندو بیویوں سمیت سات داشتائیں بھی اسی رسم کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں۔
رنجیت سنگھ کے درباری طبیب مارٹن ہونی برجر نے اپنی آپ بیتی ‘مشرق میں پینتیس سال’ میں اس ستی کا احوال یوں رقم کیا کہ ’مہاراجہ کی وفات سے اگلے روز صبح سویرے کیسے رانیاں ایک ایک کر کے پہلی اور آخری مرتبہ محل سے نکل کر لوگوں میں آتی ہیں اور موت کی راہ لیتی ہیں، سادہ لباس، ننگے پاؤں، پیدل حرم سے باہر آتی ہیں، آئینہ سامنے ہے تاکہ یقین ہو کہ وہ خوف چھپا نہیں رہیں۔ سو کے قریب افراد کچھ فاصلہ رکھتے ہوئے ساتھ ہیں۔ قریب ترین ایک شخص ایک چھوٹا ڈبا اٹھائے ہوئے ہے جس میں غریبوں میں تقسیم سے بچ جانے والے زیورات ہیں۔‘
مارٹن ہونی برجر مزید لکھتے ہیں، ’ایک رانی تو سنسار چند کی بیٹی (گڈاں) ہیں جن سے اور جن کی بہن سے رنجیت سنگھ نے اکٹھے شادی کی تھی اور جس میں، مَیں شریک بھی ہوا تھا مگر میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ ان کی بہن کا پہلے ہی میری عدم موجودگی میں انتقال ہو چکا ہے۔‘ گڈاں کے علاوہ مہاراجہ کی تین راجپوت بیویاں، ہردیوی، راج دیوی اور رجنو کور بھی ستی ہوئیں۔
جنازہ اٹھنے کا منظر وہ یوں بیان کرتے ہیں ’اب جنازے کا جلوس چل رہا ہے۔ ہزاروں افراد پیدل ساتھ ہیں۔ جنازے کے پیچھے چار رانیوں کو اب کھلی پالکیوں میں لایا جا رہا ہے۔ ان کے پیچھے سات کنیزیں پیدل اور ننگے پاؤں آرہی ہیں۔ ان کی عمر چودہ پندرہ سال سے زیادہ نہیں لگتی۔ اس غم ناک منظر پر شاید ہمارے دل ان سب سے زیادہ دھڑک رہے تھے جو اس رسم کا شکار ہونے جارہی تھیں۔ برہمن اشلوک، سکھ گرنتھ صاحب پڑھتے اور مسلمان یا اللہ، یااللہ پکارتے ساتھ تھے۔ آہستہ بجتے ڈھول اور دھیمے لہجے میں بولتے لوگوں کی آوازیں ماحول کی سوگواریت میں اضافہ کر رہے ہیں۔‘
لاہور میں 1847ء میں رنجیت سنگھ کی سمادھی تعمیر کر لی گئی اور وہاں ایک بڑے کوزے میں رنجیت سنگھ کی راکھ اور چھوٹے برتنوں میں رانیوں اور کنیزوں کی راکھ محفوظ کردی گئی۔
رنجیت سنگھ اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کا بہت شوق رکھتا تھا۔ اس کے اصطبل میں موجود گھوڑوں میں سے ایک ہزار گھوڑے مہاراجا کے لیے مخصوص تھے۔ لیلیٰ ان میں سب سے خاص گھوڑی تھی۔ رنجیت سنگھ نے اسے حاصل کرنے کے لیے نہ صرف اپنے سپاہیوں کی جانیں گنوائیں بلکہ اس گھوڑی کو پانے کے لیے خوب رقم بھی خرچ کی۔ تب مہاراجا اسپِ لیلیٰ کا مالک بنا اور اسے ہیروں اور سونے سے مزین کیا۔ اس جانور سے رنجیت سنگھ کی انسیت کا خوب چرچا ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ لیلیٰ کی موت پر اتنا رویا کہ اسے چپ کروانا مشکل ہوگیا تھا۔