ہفتہ, جون 28, 2025
اشتہار

تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا

اشتہار

حیرت انگیز

سپریم کورٹ آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے اور سپریم کورٹ کا گزشتہ سال 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد سنی اتحاد کونسل (پاکستان تحریک انصاف) کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔ اس کے کوٹہ کی نشستیں ن لیگ، پیپلز پارٹی سمیت قومی اسمبلی میں موجود دیگر جماعتوں کو ملیں گی۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نےپی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 17 سماعتوں کے بعد اس کا فیصلہ سنایا۔ اپنے مختصر فیصلے میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کرنے کے ساتھ الیکشن کمیشن کو 80 ارکان کی درخواستیں دوبارہ سننے کی ہدایت بھی کی۔

سپریم کورٹ کے 3 کے مقابلے میں 7 کی اکثریت سے نظر ثانی درخواستیں منظور کیں۔ جسٹس امین الدین، جسٹس مسرت ہلالی،جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس عامر فاروق، جسٹس علی باقر نجفی آئینی بینچ کے اکثریتی ججز میں شامل تھے۔ فیصلہ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے پڑھ کر سنایا۔

اختلاف کرنے والوں میں جسٹس جمال مندوخیل نے 39 نشستوں کی حد تک اپنی رائے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جب کہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے مشروط نظر ثانی درخواستیں منظور کیں۔

اقلیتی ججز نے فیصلہ دیا کہ 80 نشستوں تک کا معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہیں۔ الیکشن کمیشن تمام متعلقہ ریکارڈ دیکھ کر طے کرے کہ کس کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔

مخصوص نشستوں پر نظر ثانی کیس کے لیے ابتدا میں 13 رکنی آئینی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم جسٹس صلاح الدین پنہور نے بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جب کہ جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عقیل عباسی نے ابتدائی سماعت میں درخواستیں خارج کر دی تھیں۔

مخصوص نشستوں کا کیس کیا ہے اور اس میں اب تک کیا کیا ہوا؟

گزشتہ برس 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے عائد پابندی کے باعث آزاد امیدواروں کو میدان میں اتارا اور کامیابی حاصل کی۔

قانون کے مطابق آزاد ارکان مخصوص نشستوں کے اہل نہیں ہوتے، اس لیے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی اور مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے 21 فروری 2024 کو الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔

الیکشن کمیشن نے 28 فروری کو سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا اور 4 مارچ کو مخصوص نشستوں کی درخواست پر چار ایک کے تناسب سے فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 6 مارچ کو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلیے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا، لیکن پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواستوں کو

14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کیا۔

سنی اتحاد کونسل نے اس کے بعد 2 اپریل 2024 کو مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 6 مئی کو اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا۔ تاہم آئینی معاملہ ہونے کے باعث لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا۔

فل کورٹ نے 3 جون کو مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی پہلی سماعت کی اور 9 سماعتوں کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا، جو 12 جولائی کو سنایا گیا۔

سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ 8 ججز کی اکثریت نے دیا جب کہ پانچ نے اس سے اختلاف کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلہ تحریر کیا۔

اکثریتی فیصلہ کے ساتھ اختلاف کرنے والے ججز میں سے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل نے ایک نوٹ تحریر کیا جب کہ جسٹس امین الدین خان، جسٹس نعیم اختر اعوان اور موجودہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے الگ الگ نوٹ تحریر کیے۔

سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کے خلاف ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے نظر ثانی درخواستیں دائر کیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 13رکنی بینچ نے نظر ثانی درخواستوں پر 17 سماعتیں کیں۔

بعد ازاں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اگلی سماعت پر نظر ثانی درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس کے بعد دیگر 11 ججز نے سماعت جاری رکھی۔

آج جسٹس صلاح الدین پنہور کی بینچ سے علیحدگی کے بعد سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے سماعت کو جاری رکھتے ہوئے کچھ دیر پہلے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں