ہفتہ, جون 28, 2025
اشتہار

اور فرازؔ چاہییں کتنی محبتیں تجھے!

اشتہار

حیرت انگیز

فراز جیسے سخن طراز کا تذکرہ ہو تو ان کا وہ مشہور کلام بھی سماعتوں میں رس گھولنے لگتا ہے جسے پاکستان کے بڑے گلوکاروں نے گایا۔ فراز کی غزلیں ہوں یا نظمیں اور فلموں میں‌ شامل کی گئی وہ شاعری جو نور جہاں اور مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کی گئی، آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے۔ فراز کے مجموعہ ہائے کلام کے کئی ایڈیشن بازار میں آئے اور فروخت ہوگئے۔ احمد فراز اردو کے صفِ اوّل کے شاعر اور اپنے دور کے مقبول ترین شعرا میں سے ایک تھے۔ ان کی شاعری میں رومانویت اور مزاحمت کا عنصر نمایاں ہے۔

یہ پارہ جمیل یوسف کی کتاب "باتیں کچھ ادبی’ کچھ بے ادبی کی” سے لیا گیا ہے جو بطور شاعر احمد فراز کی اہمیت اور مقبولیت کو اجاگر کرتا ہے۔ جمیل یوسف نے شاعری اور ادبی تنقید کے ساتھ شخصی خاکے بھی لکھے ہیں۔ ان کے قلم سے نکلا یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے۔

جمیل یوسف لکھتے ہیں، ”شاعروں میں جو شہرت، عزت اور دولت احمد فراز نے کمائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کسی اور شاعر کو زندگی میں وہ بے پناہ محبت اور والہانہ عقیدت نہیں ملی جو احمد فراز کے حصے میں آئی۔ اقبال اور فیض کی بات الگ ہے۔ وہ بلاشبہ احمد فراز کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے شاعر تھے، ان کی زندگی میں بھی ان کی شہرت اور مقبولیت کچھ کم نہ تھی مگر ان کی پذیرائی اور ان کی اہمیت کی سطح کچھ مختلف نوعیت کی تھی۔ پھر ان کی شہرت اور مقبولیت کا دائرہ اتنا وسیع اور بے کراں نہیں تھا۔ مثلاً فراز کی زندگی میں ان کے شعری مجموعے جس کثیر تعداد میں فروخت ہوئے اس کی کوئی مثال اردو شاعری کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پھر جتنی محفلوں اور مشاعروں میں احمد فراز کو سنا گیا اس کی بھی کوئی نظیر اردو شاعری کی تاریخ میں موجود نہیں۔

جمیل یوسف مزید لکھتے ہیں، ایک مشاعرے کے دوران ظفر اقبال نے احمد فراز سے کہا کہ ” فراز! جس طرح کی شاعری تم کرتے ہو، کیا تمہارا خیال ہے کہ تمہارے مرنے کے بعد یہ زندہ رہے گی؟”

احمد فراز نے جواب دیا، ”ظفر اقبال! جتنی عزت، لوگوں کی محبت اور شہرت مجھے مل گئی ہے وہ میرے لیے کافی ہے۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ میری شاعری میرے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے یا نہیں۔”

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں