متحدہ ہندوستان میں تجارت اور کاروبار کے ساتھ ملکی سیاست میں سرگرم شخصیات میں دادا بھائی ناؤروجی اپنے دور کی ممتاز شخصیت تھے۔ وہ سماج کے ایک بڑے نباض بھی تھے۔ انھوں نے رفاہِ عامّہ کے ساتھ مختلف خیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور ہندوستان کے عوام میں بڑا مقام و و مرتبہ پایا۔
دادا بھائی ناؤروجی کو تاریخ کے اوراق میں ایک دور اندیش اور زیرک سیاست داں کے ساتھ عوام کا خیر خواہ لکھا گیا ہے۔ وہ پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے سیاست کے میدان میں اس بات کو اچھالا کہ برطانیہ تجارت کی آڑ میں ہندوستان کے وسائل پر ہاتھ صاف کررہا ہے اور عوام کا استحصال کر رہا ہے۔
ستمبر 1825ء کو بمبئی کے ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہونے والے دادا بھائی ناؤروجی 30 جون 1917ء کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ ایک غریب گھرانے کے فرد تھے۔ انھوں نے ہندوستان میں مفت ابتدائی تعلیم کے ایک منصوبے سے استفادہ کیا اور تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے کاروبار جمانے کے ساتھ برطانوی دور کی سیاست میں ممتاز ہوئے۔ وہ نیک صفت اور دیانت دار اور راست گو مشہور تھے۔ مالی تنگی اور مسائل نے انھیں زیادہ حسّاس بنا دیا تھا اور خودداری بھی ان کی صفات میں شامل تھی۔ ناؤروجی نے اس مفت تعلیم کو خود پر قرض تصوّر کیا۔ اور جب وہ مالی طور پر مستحکم ہوئے تو تعلیم سمیت مختلف دوسرے شعبہ جات میں خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ ناؤروجی نے اس دور میں برطانیہ میں تعصب اور نسل پرستی کا سامنا کیا، اور اسے مسترد کرتے ہوئے امتیازی سلوک اور سامراجی نظام کو چیلنج کیا۔
دادا بھائی ناؤروجی کے گھر کا ماحول ایسا تھا کہ انھیں چھوٹی عمر ہی سے سچ اور حق گوئی کے ساتھ دوسروں سے محبت اور صلۂ رحمی کی عادت پڑ گئی۔ والد اس وقت وفات پاچکے تھے جب دادا بھائی ناؤروجی زندگی اور موت کی حقیقت سے بھی ناآشنا تھے۔ والدہ نے ان کی تربیت بہترین انداز سے کی۔ یہی وجہ ہے کہ ناؤروجی نے اپنی زندگی کو ایک مقصد کے تحت گزارا اور فلاح و بہبود کے کاموں پر توجہ دی۔ وہ لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے بھی بڑے داعی تھے۔ 1840ء کی دہائی کے آخر میں ںاؤروجی نے لڑکیوں کے لیے اسکول کھولے تو ہندوستان کا قدامت پسند طبقہ ان کے خلاف ہوگیا، لیکن انھوں نے اس کی پروا نہ کی۔ اسی ثابت قدمی اور خلوص کا نتیجہ یہ نکلا کہ سمجھ دار لوگوں نے بڑی تعداد میں اپنی لڑکیوں کو اسکول بھیجنا شروع کردیا۔ اس کام یابی نے ناؤروجی کو بہت حوصلہ دیا اور کئی دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ ناؤروجی ہندوستان کی ان باشعور اور نڈر شخصیات میں سے ایک تھے جنھوں نے صنفی مساوات کو اہمیت دی اور عورتوں کو تمام بنیادی حقوق دیے جانے کے ساتھ تعلیم کے علاوہ ہر شعبے میں ان کی شمولیت یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
1901ء میں دادا بھائی ناؤروجی کی کتاب Poverty and Un-British Rule in India شایع ہوئی جس نے برطانوی سیاست دانوں اور افسر شاہی کو گویا مشتعل کر دیا۔ انھوں نے اس کتاب میں تفصیل سے لکھا کہ نوآبادیاتی نظام میں کیسے ہندوستان کی دولت کو برطانیہ منتقل کیا جارہا ہے جب کہ ہندوستان میں غربت پنپ رہی ہے۔ یہ 1855ء کی بات ہے جب ناؤروجی پہلی مرتبہ برطانیہ گئے اور وہاں دولت کی فروانی اور خوش حالی دیکھنے کے بعد ہندوستان کے حالات اور عوام کی کس مپرسی کے اسباب جاننے کی کوشش کی۔ انھوں نے اس کے لیے معاشی جائزہ لیا اور مالی تجزیہ کرنے پر کام کرنے لگے۔ ناؤروجی نے انکشاف کیا کہ برطانیہ ہندوستانیوں سے مخلص نہیں اور انھیں قحط کے عفریت اور دیگر مسائل کے ساتھ غربت کی چکّی میں جھونک رہا ہے۔ یہ سچ سامنے لانے پر برطانوی حکومت مشتعل ہوگئی۔ ناؤروجی کو حکومت کا باغی اور سرکش کہا گیا، لیکن ناؤروجی کی باتیں ہندوستانیوں کے دل میں کھب گئی تھیں۔ دوسری طرف دادا بھائی ناؤروجی کے خیالات اور افکار نے مغرب کے باشعور طبقے، ترقی پسند مکتبِ فکر کی اہم شخصیات سمیت یورپ کے اشتراکیت پسندوں کو بھی متاثر کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ناؤروجی نے محنت کش طبقے کا بہت ساتھ دیا اور تعلیم اور دیگر شعبوں سمیت سیاست میں عورتوں کے حقِ رائے دہی کے لیے آواز اٹھائی۔ انھوں نے ہندوستان میں فوری طور پر مثالی اقدامات اور کارآمد اصلاحات کا مطالبہ کیا جس نے سنجیدہ طبقات کو ناؤروجی کی جانب متوجہ کیا۔ مگر دوسری طرف یہی افکار اور مطالبات برطانیہ کی نظر میں ناؤروجی کا وہ جرم بن گئے جس کے بعد مفاد پرست برطانوی سیاست دانوں نے ناؤروجی کو تحقیر آمیز الفاظ سے پکارنا شروع کردیا تاکہ ان کے حوصلے پست کیے جاسکیں۔ وہ برطانوی سیاست میں انتخابی عمل کے ذریعے قدم رکھنے لگے تو ان کی مخالفت کرتے ہوئے برطانیہ اور متحدہ ہندوستان میں ان سے متعلق منفی پروپیگنڈا کیا گیا، مگر یہ حربے ناکام ہوگئے۔ 1892ء میں ناؤروجی لندن میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب دادا بھائی ناؤروجی نے ایوان میں اپنا نظریہ اور مؤقف پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ برطانوی طرزِ حکم رانی سفاکانہ ہے جس میں ان کے ہم وطنوں کا استحصال اور انھیں بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ناؤروجی 1895ء میں دوبارہ انتخابی اکھاڑے میں اترے، مگر اس مرتبہ انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس وقت تک ان کی فکر اور آواز برطانیہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچ چکی تھی جس کا بہت فائدہ ہوا۔ وہ پہلے ایشیائی تھے جنھیں رکنِ پارلیمان منتخب کیا گیا تھا۔
ناؤروجی ایک ایسے راہ نما تھے جس نے اپنے سیاسی اور سماجی خدمت کے سفر میں کئی بار نامساعد حالات، اپنوں کی مخالفت اور سخت رویّے کا بھی سامنا کیا، لیکن کسی بھی موقع پر گھبرا کر اپنا راستہ نہیں بدلا بلکہ اپنے مقصد پر نظر رکھی اور منزل کی سمت قدم بڑھاتے چلے گئے۔