ہفتہ, جولائی 5, 2025
اشتہار

10 سالہ سارہ شریف کا خون رنگ لے آیا، برطانیہ میں بچی کے نام سے تحفظ اطفال قانون لانے کی تیاری

اشتہار

حیرت انگیز

برطانیہ میں سگے باپ اور سوتیلی ماں کے ہاتھوں قتل ہونے والی 10 سالہ سارہ نے برطانوی پارلیمنٹ کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سارہ قتل کیس نے برطانوی پارلیمنٹ کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب وہاں سارہ لاز کے نام سے ایک ایسے بل پر بحث کی جا رہی ہے، جو مستقبل میں بچوں کے تحفظ کے لیے قانون بننے جا رہا ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ میں پاکستانی نژاد لارڈ محمد اشرف نے ’’سارہ لاز‘‘ کے نام سے ایک بل پیش کیا ہے، جس پر پارلیمنٹ میں بحث جاری ہے۔

اگر برطانوی پارلیمنٹ یہ بل منظور کر لیتی ہے تو پھر یہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا جو برطانیہ میں سارہ جیسے گھریلو تشدد اور جنسی ہراسانی کا شکار بچوں کی حفاظت کے لیے معاون ثابت ہوگا۔

لارڈ محمد اشرف نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے اندر سارہ لاز کے نام سے ایک بل پیش کیا گیا ہے پاس ہونے کے لیے جس کا مقصد بچوں کی حفاظت ہے۔ یہ سارہ لاز کیا ہے اور یہ سارہ کون ہے جس کے نام پر یہ قانون بنایا جا رہا ہے۔

سارہ کا تعارف:

پاکستان سے علاقے جہلم سے تعلق رکھنے والے عرفان شریف کی شادی ایک یورپین خاتون سے ہوئی، جس سے ان کی بیٹی سارہ پیدا ہوئی۔ بعد ازاں میاں بیوی کے درمیان علیحدگی ہوگئی، جس کے بعد عرفان شریف نے بینش بتول نامی پاکستانی خاتون سے شادی کی تھی۔ سارہ کے قتل کے وقت اس معصوم کی عمر صرف 10 سال تھی۔

سارہ قتل کیس کیا ہے اور اس میں کب کیا ہوا؟

سارہ کی کہانی بڑی دردناک ہے۔ 2 سال قبل اگست 2023 میں 10 سالہ معصوم بچی سارہ کے قتل کا کیس سامنے آیا، جس نے برطانیہ سمیت پوری دنیا کو ہلا دیا۔ اس قتل کا سب سے دردناک پہلو یہ تھا کہ بچی کو اس کے والد عرفان شریف اور سوتیلی والدہ بینش بتول نے قتل کیا تھا اور قتل سے قبل بچی کو دو سال تک غیر انسانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔

قتل کے بعد یہ خاندان قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے پانچ بچوں سمیت فرار ہوکر پاکستان آ گیا۔ تاہم ملزمان کو انٹرپول کے ذریعہ پاکستان واپس لایا گیا اور اس میں پنجاب پولیس نے اہم کردار ادا کیا۔ لندن ایئرپورٹ پہنچنے پر دونوں ملزمان (سارہ کے والد اور سوتیلی والدہ) کو گرفتار کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی پولیس نے مقتول بچی کے چچا فیصل ملک کو بھی قتل کے جرم میں معاونت کرنے پر گرفتار کر لیا۔

سارہ قتل کیس کا یہ مقدمہ لندن کی کرمنل کورٹ میں چلا اور پراسیکیوشن نے جب عدالت میں شواہد پیش کیے تو عدالت میں ہر شخص بچی پر ہونے والے مظالم کا سن کر لرز گیا۔ پراسیکیوشن کے مطابق 10 سالہ بچی کو قتل سے قبل دو سال تک مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے جسم پر کاٹنے، استری سے جلانے سمیت دیگر بھیانک تشدد کے نشانات پائے گئے۔

عدالت نے سارہ قتل کیس میں اس کے والدین کو مجرم قرار دیتے ہوئے مرکزی مجرم والد عرفان شریف کو 40 سال قید کی سزا سنائی۔ سزا پوری ہونے پر عدالت فیصلہ کرے گی کہ وہ باہر آ سکتا ہے یا نہیں۔ اسکے ساتھ ہی عدالت نے بچی کی سوتیلی ماں بینش بتول کو 33 اور مقتول بچی کے چچا فیصل ملک کو 16 سال قید کی سزا سنائی۔

سارہ اب واپس تو نہیں آ سکتی۔ لیکن اس کے نام سے بچوں کے تحفظ کے لیے بننے والے اس قانون کو اگر برطانوی پارلیمنٹ منظور کر لیتی ہے تو پھر اس قانون کے تحت کسی اور سارہ کو اس طرح کے انجام کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

برطانیہ میں مقیم کمیونٹی بھی اس بل کو سپورٹ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس طرح سے سخت قوانین بننے چاہئیں۔ اس سے جہاں بچوں کی حفاظت ہو سکے گی، اس کے ساتھ ہی کمیونٹی میں بھی شعور پیدا ہوگا۔

 

اہم ترین

مزید خبریں