عالمی توانائی ایجنسی سے تعاون معطلی کے اعلان کے بعد آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو ایران سے نکال لیا گیا۔
اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے IAEA نے کہا ہے کہ اس کے معائنہ کاروں کی ایک ٹیم آج ایران سے "بحفاظت” ویانا، آسٹریا میں ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر واپس روانہ ہوئی ہے۔
اس کے ڈائریکٹر رافیل گروسی نے، "ایران میں اپنی ناگزیر نگرانی اور تصدیقی سرگرمیوں کو جلد از جلد دوبارہ شروع کرنے کے لیے IAEA کی ایران کے ساتھ بات چیت کی اہم اہمیت” کا اعادہ کیا۔
ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے گذشتہ ماہ اسرائیل اور امریکا کی طرف سے ملک بھر میں جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کو معطل کرنے کے بل پر دستخط کیے تھے۔
An IAEA team of inspectors today safely departed from Iran to return to the Agency headquarters in Vienna, after staying in Tehran throughout the recent military conflict. pic.twitter.com/65YQcDL7Ik
— IAEA – International Atomic Energy Agency ⚛️ (@iaeaorg) July 4, 2025
نئے قانون کے مطابق اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کی منظوری کے بغیر جوہری مقامات کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
یران کے صدر مسعود پزشکیان نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے قانون کو باضابطہ طور پر نافذ کردیا۔
ایران کا موقف ہےکہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی ایرانی تنصیبات پر حملے رکوانے میں ناکام رہی جبکہ اسرائیلی اور امریکی حملوں کی مذمت بھی نہیں کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کے اس اقدام کے بعد ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی مزید مشکل ہو سکتی ہے اور خطے میں تناؤ میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
یاد رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی نے 25 جون کو ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کا بل پاس کیا اور اسی دن یعنی 25 جون کو ہی آئین کی نگران کونسل نے بھی حکومت کے لئے لازم الاجرا، اس قانون کی تائید کردی۔
قابل ذکر ہے کہ ایران حکومت کے لئے لازم الاجرا اس قانون کا بل ایرانی پارلیمنٹ نے یہ بل 223 میں سے 221 اراکین کے ووٹوں سے پاس کیا ہے، ووٹنگ میں ایک ووٹ نیوٹرل پڑا اور مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں پڑا۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایران این پی ٹی معاہدے کا پابند ہے اور ایران آئی اےای اے سے سیف گارڈ معاہدے پرعمل جاری رکھے گا۔
عباس عراقچی نے واضح کیا کہ جوہری تعاون اب اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے ذریعے کیا جائے گا جوہری سائٹس پر حملوں کے بعد احتیاطی تدابیر کے تحت نیا قانون بنایا۔
عالمی توانائی ایجنسی (آئی اےای اے) کیساتھ تعاون کیسے اور کب ہو گا؟ اس کی تفصیلات تاحال واضح نہیں ہو سکیں۔ جرمن دفترخارجہ نے ایران کے نئے قانون کو تباہ کن پیغام قرار دیا ہے۔
ایران نے جرمنی کی تنقید پر شدید ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی حملوں کی حمایت پر بھی برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ جرمن حکومت ایرانیوں کےخلاف بدنیتی رکھتی ہے۔
این پی ٹی معاہدہ کیا ہے؟
اس کا جواب 1968 کے ایک معاہدے میں ہے جسے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ (NPT) کا معاہدہ کہا جاتا ہے۔
اس معاہدے پر ایران سمیت 190 ممالک نے دستخط کیے ہیں اور یہ 1970 میں نافذالعمل ہوا۔ اس معاہدے کے تحت ممالک کے پاس سویلین جوہری پروگرام ہو سکتے ہیں تاہم این پی ٹی قانونی طور پر پابند کرتا ہے کہ اس کا رکن ملک جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔
تاہم، اسرائیل، بھارت، پاکستان اور جنوبی سوڈان نے اس پر دستخط نہیں کیے ہیں اور اس کے بعد شمالی کوریا نے دستبرداری اختیار کر لی ہے۔
جب یہ معاہدہ شروع ہوا تو بھارت اور پاکستان کو جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا اور اگر وہ اب اس میں شامل ہوتے ہیں تو انہیں غیرمسلح کرنے کی ضرورت ہوگی۔
جنوبی سوڈان نسبتاً نیا ملک ہے جس کا کوئی جوہری پروگرام نہیں ہے۔
اسرائیل نے دستخط نہیں کیے ہیں کیونکہ وہ دشمنوں کے خلاف حکمت عملی کے طور پر جوہری ابہام کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت نہیں دیتا ہے، جو کہ این پی ٹی کے تحت ضروری ہوگا۔
ایران، عرب ممالک اور دیگر نے طویل عرصے سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحے سے پاک کرنے اور اس کے جوہری پروگرام کے بارے میں شفاف ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جائے، اور اسرائیل کے اسلحے کو علاقائی کشیدگی اور خطرے کے منبع کے طور پر دیکھا جائے۔
دنیا کے کئی ممالک کا ماننا ہے کہ اسرائیل کے پاس خفیہ طور پر جوہری ہتھیار موجود ہیں لیکن کبھی اس نے اپنی ایٹمی تنصیبات اور جوہری صلاحیتوں کے جائزے کی اجازت نہیں دی۔
ایران نے ہمیشہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی تردید کی ہے حالانکہ بہت سے ممالک ایران کے پرامن ارادوں کے دعوے کے قائل نہیں ہیں۔