منگل, مئی 13, 2025
اشتہار

وہ مشہور ڈکشنری جس کی اشاعت نے ایک نواب کو خفّت سے دوچار کردیا

اشتہار

حیرت انگیز

1747ء میں انگریزی زبان کی ایک محققانہ ڈکشنری کی تالیف کا ارادہ کرکے جونسن صاحب نے ایک ممتاز ناشر رابرٹ ڈوڈسلے کے ساتھ گفت و شنید شروع کی تھی۔

ڈوڈسلے نے مشورہ دیا کہ اس ڈکشنری کا انتساب لارڈ چیسٹر فیلڈ کے نام مناسب اور فائدہ مند رہے گا۔ جونسن صاحب اس لارڈ کو سلام کرنے پہنچے۔ لاٹ صاحب نے مربیانہ وتیرے کے ساتھ دس پاؤنڈ کی بھیک دی۔ کچھ مدّت بعد جونسن صاحب پھر حضور کو سلام کرنے ان کے دولت کدے پر حاضر ہوئے، لیکن افسوس، اب کے بار یابی نہ ہوئی۔ بد دل ہو کر انہوں نے لاٹ صاحب کے نام ڈکشنری معنون کرنے کا ارادہ فسخ کر دیا۔

اس ڈکشنری کی تالیف پر آپ نے آٹھ برس (1747ء تا 1755ء) سے زیادہ صرف کیے۔ انگریزی کی یہ پہلی ڈکشنری نہ تھی، اس سے پہلے اس کی ایک ڈکشنری نتھینیل بیلی (Nathaniel Bailey) نے تالیف کر کے شائع کی تھی۔

یورپ کی بیش تر زبانوں کے الفاظ بکثرت لاطینی اور یونانی زبانوں اور دیگر (مقامی) بولیوں سے مُستعار ہیں۔ بیلی اور جونسن دونوں نے اپنی ڈکشنریوں میں الفاظ کے معانی بتاتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ الفاظ کن زبانوں سے مستعار ہیں اور کن لفظوں سے مُشتق ہیں۔

اکثر طالبانِ علم جب ڈکشنریوں سے اپنا کام نکالتے ہیں تو شاذ ہی خیال کرتے ہیں کہ ایک قابلِ اعتبار ڈکشنری کی تالیف کیسی صبر آزما جاں فشانی چاہتی ہے۔ انگریزی سے اُردو اور اُردو سے انگریزی میں ترجمہ کرتے ہوئے مجھے عربی، فارسی، انگریزی اور اُردو کی ڈکشنریوں کی ضرورت قدم قدم پر پڑتی رہی ہے، ان کے مؤلّفوں کی احسان مندی کا گہرا احساس میرے دل میں رہتا ہے۔ ان کی عرق ریزیوں کے بغیر تہذیب کی ترقّی ممکن نہ ہوتی۔

انگلستان کی ادبی اور علمی زندگی میں جونسن صاحب کی ڈکشنری کی اشاعت ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ 1755ء میں یہ طبع ہو کر بازار میں آئی تو اس کی دھوم مچ گئی۔ جونسن صاحب کا بول بالا ہوا تو لارڈ چیسٹر فیلڈ کو خفّت ہوئی، حضور نے پاشا پن کے ساتھ اس ڈکشنری کے مؤلف سے حقارت اور بے التفاتی کا سلوک کیا تھا اور مُربّی کہلانے کا موقع کھو دیا تھا۔

اب خفّت دور کرنے کے لیے انہوں نے ایک اخبار میں ڈکشنری کی تقریظ مربّیانہ زعم کے ساتھ شائع کرائی۔ اسے پڑھ کر جونسن صاحب کو طیش آیا اور انہوں نے لاٹ صاحب کو ایک طنز آمیز خط لکھا جو بَوزویل نے جونسن صاحب کی سوانح عمری میں نقل کر کے محفوظ کر دیا ہے، یہ خط یہاں نقل کیا جاتا ہے۔

بخدمت عزّت مآب جناب لارڈ چیسٹر فیلڈ
حضورِ والا!
حال ہی میں رسالہ ورلڈ (World) کے مالک نے مجھے اطلاع دی ہے کہ دو کالم جن میں پبلک کی توجہ تعریف کے ساتھ میری ڈکشنری کی طرف دلائی گئی ہے حضور کے قلم سے ہیں۔ اکابر کی کرم فرمائیوں کا تجربہ مجھے کبھی میسّر نہیں ہوا، چنانچہ مجھے ٹھیک معلوم نہیں کہ یہ اعزاز جو مجھے بخشا گیا ہے اسے کن آداب کے ساتھ وصول کروں اور کن الفاظ میں اس کی رسید دوں۔

آغاز میں جب ذرا سی حوصلہ افزائی کے آثار دیکھ کر میں حضور کے دولت کدے پر حاضر ہوا حضور سے ہم کلامی کی مسحور کن تاثیر کا خیال میرے جی میں اُسی طرح تھا جیسے ساری خلقِ خدا کے دلوں میں تھا۔ اور یہ تمنّا میرے دل سے دور نہ ہوتی تھی کہ میں ”فاتحِ کرّۂ ارض کا دل جیتنے والا“ کہلاؤں۔ لیکن میری پذیرائی ایسی حوصلہ شکن تھی کہ جبہ سائی جاری رکھنے کی اجازت مجھے نہ اپنی خود داری سے ملی نہ اپنی خاک ساری سے۔

ایک بار جب پبلک کی موجودگی میں، مَیں حضور سے مخاطب ہوا تو میں خوشامد کے وہ سارے کرتب کام میں لایا جو ایک گوشہ گیر دربار ناآشنا اسکالر کے بس میں تھے، حضور کی عنایت کے حصول کے لیے جو کچھ مجھ سے بن آیا میں نے کیا، ایسی پوری کوشش سے خواہ وہ حقیر ہی کیوں نہ ہو بے اعتنائی کی برداشت کسی انسان کو نہ ہو گی۔

جنابِ والا، آج سے سات برس پہلے میں حضور کی حویلی کے آستانے پر باریابی کا منتظر رہا اور دھتکارا گیا۔ سات برسوں کی اس مدّت میں بندہ اپنی ساری توانائی صرف کرکے جن دشواریوں کا مقابلہ کر کے اپنے کام میں لگا رہا، ان کی شکایت اب بے سود ہے، بغیر کسی مربیانہ امداد اور حوصلہ افزائی کے اور بغیر کسی متبسّم تشویق کے میں نے یہ کام کر ڈالا اور اسے اشاعت کی منزلِ مقصود تک پہنچایا، کہ سابق میں کسی مُربیّ سے تعلق کا مجھے تجربہ نہ ہوا تھا۔

وَرجِل (زرعی گیت) میں گڈریا بالآخر محبّت آشنا ہوا، لیکن اس کا محبوب چٹانوں کا زائیدہ نکلا۔

حضور والا! کیا مُربیّ اُسی شخص کو کہتے ہیں جو کسی مصیبت زدہ کو ڈوبنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھ کر لاپرواہی سے کنارے پر کھڑا رہے اور جب وہ بچارہ مصیبت کا مارا اپنی ہمّت سے خشکی پر آن پہنچے تو مدد کے دکھاوے کے لیے اس کی طرف تیزی سے بڑھ کر اُس کے آرام کے سانس میں مُخل ہو؟ میری محنتوں کو آپ نے جس التفات سے اب نوازا ہے یہ التفات اگر آپ نے سابق میں فرمایا ہوتا تو میں اسے مہربانی سمجھتا، لیکن اس میں اتنی تاخیر ہوئی ہے کہ اب میری طبیعت کی ویرانی کو اور میری گم نامی کو دور کرنے میں اس کی کوئی کارفرمائی نہیں۔

اب جب کہ مجھے نام وری حاصل ہو گئی ہے تو میں اس نوٹس کا محتاج نہیں، اگر ایک شخص جس پر کوئی کرم نہیں کیا گیا ممنونیت کا اظہار نہ کرے تو اسے بد خُلقی کوئی نہ کہے گا، مشیتِ ایزدی نے مجھے اپنے استقلال اور اپنی محنت سے ایک ہمّت آزما کام سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی، کسی مُربیّ کے احسان کا اس میں کوئی دخل نہیں۔

کسی مُربیّ کی مہربانی کے بغیر میں اپنے کام میں لگا رہا۔ اگر بے اعتنائی مزید ہوتی رہی تو یوں ہی سہی، ایک وہ زمانہ تھا، جب میں فخر و مباہات کے ساتھ مربّیوں کے کرم کا خواب دیکھا کرتا تھا، پھر تجربے نے میری آنکھیں کھول دیں۔

حضور کا نہایت ناچیز اور نہایت تابع دار خادم
سَیم جَونسن
فروری 1755ء

(علمی و ادبی شخصیت اور معروف اسکالر داؤد رہبر کے مضمون سے انتخاب)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں